آزادی ایک نعمت ہے اس کی قدر کریں

ہم آزاد فضاؤں میں جی رہے ہیں، ہم اونچی آواز میں آذان کہہ سن لیتے ہیں، ہر پیٹرول پمپ اور اہم جگہ پر مسجد مل جاتی ہے، کراچی سے خیبر تک سفر کریں تو ہر دو چار پانچ دس کلومیٹر کے فاصلے پر مسجد کے مینار نظر آ جاتے ہیں، دینی جلسہ رکھ لیتے ہیں، داڑھی لمبی اور شلوار اونچی کرکے بلا خوف و خطر چل پھر لیتے ہیں، ہماری بیٹیاں سکارف، عبایہ اور برقعہ آسانی سے پہن لیتی ہیں، نکاح، جنازے ،اعتکاف اور روزے بلا جھجک کر لیتے ہیں، اسلامی سکولز اور مدرسے آسانی سے دستیاب ہیں، اسلامی نام رکھنے میں کوئی خوف نہیں ہے، حلال گوشت مل جاتا ہے، گائے رکھنے، پالنے اور ذبح کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، حج و عمرہ پہ جب چاہیں جا سکتے ہیں، مظلوم مسلمانوں کے حق میں چار بول بول لیتے ہیں حتی کہ تھوڑا بہت جہاد فی سبیل اللہ کا تذکرہ بھی ہوجاتا ہے
قسم اللہ کی ! یہ سب وہ نعمتیں ہیں کہ جنہیں بہت سے لوگ ترس رہے

اللہ تعالیٰ نے آزادی کو نعمت قرار دیا:

بنی اسرائیل پر آزادی کی نعمت

بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ

اے بنی اسرائیل! بے شک ہم نے تمھیں تمھارے دشمن سے نجات دی۔
طه : 80

اور فرمایا :

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تمھیں فرعون کی آل سے نجات دی۔
إبراهيم : 6

آزاد قوم کا ہر فرد آزاد ہوتا ہے:

موسی علیہ السلام کے بنی اسرائیل کے ساتھ ایک خطاب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کیا ہے :

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تم میں انبیاء بنائے اور تمھیں بادشاہ بنا دیا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔
المائدة : 20

سوال پیدا ہوتا ہے کہ
بادشاہ تو ایک ہی ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا کہہ کر سب کو بادشاہ کیوں قرار دیا
جواب اس کا یہ ہے کہ جس قوم کی بادشاہت ہوتی ہے اس کا ایک ایک فرد ذہنی طور پر بادشاہ ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو حاکم سمجھتے ہوئے سینہ چوڑا کرکے چلتا ہے
ہمارے حافظ صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
“آزاد اور حاکم قوم کا ہر فرد ہی بادشاہ اور محکوم قوم کا ہر فرد غلام ہوتا ہے۔”

متحدہ ہندوستان کا ایک واقعہ:

یہ واقعہ ہمیں ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ نے سنایا تھا انہوں نے اس واقعہ کا کوئی مصدر بھی ذکر کیا تھا لیکن اب وہ مجھے یاد نہیں ہے
واقعہ یہ ہوا کہ جب متحدہ ہندوستان میں انگریز کی حکومت تھی تب ایک موقع پر ہندوستانی عوام نے انگریز حکومت کے خلاف ریلی نکالی
انگریز حکومت نامنظور
انگریز حکومت نامنظور
ایک شخص وہاں سے گزر رہا تھا اس نے جلوس دیکھا تو سڑک پر جھاڑو دینے والے ایک عیسائی خاکروب سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں تو اس نے کہا :
یہ ہمارے خلاف ریلی نکال رہے ہیں

سوچیے کہ ریلی تو حکومت کے خلاف تھی اور بے چارے مسکین خاکروب کا حکومت سے کیا تعلق ہوتا ہے لیکن چونکہ انگریز بھی عیسائی تھے اور وہ خاکروب بھی عیسائی تھا تو وہ خاکروب یہی سمجھتا تھا کہ حکومت ہماری ہی ہے

مہاجرین مکہ پر آزادی کی نعمت:

مہاجرین جب مدینہ پہنچ گئے تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے، زمین میں نہایت کمزور سمجھے گئے تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمھیں اچک کر لے جائیں گے تو اس نے تمھیں جگہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمھیں قوت بخشی اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، تاکہ تم شکر کرو۔
الأنفال : 26

آزادی اتنی بڑی نعمت ہے کہ والد کا حق ادا کرنے کی صرف یہ ہی ایک صورت ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تجْزِى وَلَد وَالِدًا إِلَّا أَن تَجِدَهُ مَمْلُوا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ.

کوئی بیٹا والد ( کی محبت ) کا حق ادا نہیں کر سکتا ، الا یہ کہ اسے ( والد کو ) غلام پائے ، اسے
خریدے اور آزاد کر دے۔ صحيح مسلم : 1510

اس رب کی عبادت کریں جس نے خوف سے بچا کر امن دیا ہے

اللہ تعالیٰ نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ

تو ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔
قريش : 3

الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ

وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔
قريش : 4

خوف بہت بڑی مصیبت ہے:

رازی فرماتے ہیں :
ایک عالم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو بیماری اور خوف میں سے ایک کے انتخاب پر مجبور کیا جائے تو آپ کیا اختیار کریں گے؟
انھوں نے فرمایا :میں بیماری کو اختیار کروں گا کہ اس میں آدمی کھا پی اور سو تو سکتا ہے، خوف میں اس سے بھی محروم ہو جاتا ہے، آپ ایک بکری کا تصور کریں جس کی ٹانگ ٹوٹ جائے، وہ کھاتی پیتی رہے گی، سو بھی جائے گی، مگر ایک تندرست بکری جس کے سامنے بھیڑیا ہو، وہ نہ کھا سکے گی، نہ پی سکے گی اور نہ آرام کر سکے گی، حتیٰ کہ نوبت موت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۂ قریش میں بھوک سے کھلانے اور خوف سے امن دینے کی نعمت کا ذکر فرما کر قریش کو خاص اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

ابراهيم علیہ السلام اپنے شہر کے لیے بے خوفی کی دعا کرتے ہیں

خوف کی اسی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے دعا کی :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ

اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔
إبراهيم : 35

غلامی بہت مشکل ہے:

غلامی میں بچے ذبح ہوتے ہیں، جوان قتل، عزتیں رسوا اور بوڑھے ذلیل و خوار ہوتے ہیں
قرآن نے بنی اسرائیل کی غلامی کا نقشہ کھینچا ہے

وَاِذۡ نَجَّيۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ يَسُوۡمُوۡنَكُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ يُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُوۡنَ نِسَآءَكُمۡ‌ؕ وَفِىۡ ذٰلِكُمۡ بَلَاۤءٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ عَظِيۡمٌ

اور جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دی، جو تمہیں برا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔
البقرة – آیت 49

چین میں خوف اور غلامی کا ایک منظر:

آج کل دہریہ ملک چین میں حکومت کے حکم پر ایک یا دو سے زیادہ بچے پیدا ہونے پر عموماً انھیں ہسپتال ہی میں زہر کا ٹیکہ لگا کر مار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی اپنا بچہ مرنے سے بچا لے تو اس کا پیدائش کے رجسٹر میں اندراج ہو سکتا ہے نہ اسے رجسٹرڈ شہری کی مراعات حاصل ہو سکتی ہیں۔ کوئی اولاد والا ہی اس دردناک کیفیت کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود پوری قوم خوشی یا بے بسی سے ان احکام کے پیچھے چل رہی ہے

جانتے ہیں غلام سے پردہ کیوں نہیں؟!

سورہ نور کی آیت نمبر 31 میں اللہ تعالیٰ نے ایک مسئلہ بیان کیا ہے کہ عورت اپنے غلام کے سامنے بھی اپنی وہ زینت ظاہر کر سکتی ہے جو دوسرے محرموں کے سامنے ظاہر کرتی ہے۔

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام لے کر فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہبہ کیا تھا، فاطمہ رضی اللہ عنھا پر ایک کپڑا تھا، وہ اس کے ساتھ سر ڈھانپتیں تو پاؤں تک نہ پہنچتا اور جب اس کے ساتھ پاؤں ڈھانپتیں تو سر پر نہ پہنچتا۔ جب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشکل دیکھی تو فرمایا :

[ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكِ بَأْسٌ إِنَّمَا هُوَ أَبُوْكِ وَ غُلَامُكِ ]

’’تم پر کوئی حرج نہیں، یہاں صرف تمھارا باپ ہے اور تمھارا غلام ہے۔‘‘ [ أبوداوٗد : 4106 قال الألباني صحیح ]

درج بالا آیت مبارکہ اور حدیث مقدسہ سے معلوم ہوا کہ غلام سے پردہ نہیں ہے
اب سوال یہ ہے کہ
کیوں؟؟
غلام بھی جوان ہوسکتا ہے اس کے بھی جذبات ہوتے ہیں تو پھر اس سے پردہ کیوں نہیں؟
یہی سوال ایک دفعہ استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ سے کیا گیا تو آپ اپنے مخصوص انداز میں فرمانے لگے : مولوی صاحب ! ہم نے غلامی دیکھی ہی نہیں ہے، غلام کو جرأت نہیں ہوتی کہ اپنے مالک یا مالکہ کے سامنے آنکھ بھی اٹھا سکے

غلامی میں ضمیر بدل جاتے ہیں:

غلامی اس قدر بری چیز ہے کہ یہ ضمیر بدل دیتی ہے یہ سوچ، فکر اور خیالات بدل دیتی ہے، یہ غیرت مٹا دیتی ہے، جرأت و بہادری کو بزدلی اور مایوسی میں بدل دیتی ہے، اس سے خودی اور خودداری کا جنازہ نکل جاتا ہے
سرکس کے شیر کو جنگل میں چھوڑ آؤ ہوسکتا ہے ہرنیوں اور بکریوں سے ڈرنے لگے
پنجرے کا باز اپنی اونچی اوڑان بھول جاتا ہے
کِلِّے سے بندھا رہنے والا گھوڑا بسااوقات پلاسٹک کی کرسی سے باندھ کر روک لیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی منہ زور قوت کے جوہر بھول چکا ہوتا ہے
بس یہی حال غلام قوموں کا ہے

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے طلبہ:

مدینہ یونیورسٹی انترنیشنل یونیورسٹی ہے، وہاں دنیا بھر کے ممالک سے طلبہ آتے ہیں ایک طالب علم نے بتایا کہ آزاد اور غلام ملکوں کے طلبہ کے مزاج، سوچ و فکر، رہن سہن، ترجیحات اور زیر بحث رہنے والے موضوعات میں بہت فرق ہے اور ان کے طور و اطوار سے آزادی اور غلامی کے اثرات صاف نظر آرہے ہوتے ہیں

آپ نے بنی اسرائیل کو نہیں پڑھا؟

اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا کچھ نہیں عطا کیا، انہوں نے اپنی آنکھوں سے فرعونوں کو ڈوبتے دیکھا، پتھروں کو پھوٹتے دیکھا، من و سلوی اترا، گائے کا گوشت مارنے سے مردہ زندہ ہوا، بادلوں نے سایہ کیا، کوہ طور پہ گئے، تورات ملی، سامری مرا سب کچھ دیکھا
لیکن
جب جہاد کا حکم دیا گیا تو کانپنے لگے کہ ہائے پتہ نہیں کیا ہوگا؟ کیا بنے گا؟ کیسے لڑیں گے؟ مر جائیں گے؟
جانتے ہیں کیوں؟
اس لیے کہ ساری زندگی غلامی میں گزاری تھی، بس ظالموں کی جی حضوری سیکھی تھی،دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ان کے بس کی بات نہیں تھی
یہ غلامی کے اثرات ہی تھے کہ صاف ہی کہہ دیا :

قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

انھوں نے کہا اے موسیٰ! بے شک ہم ہرگز اس میں کبھی داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں، سو تو اور تیرا رب جائو، پس دونوں لڑو، بے شک ہم یہیں بیٹھنے والے ہیں۔
المائدة : 24

دہلی کے ایک رہائشی محمد خالد کا پیغام سن لیجیے

معروف کالم نگار جاوید چوہدری لکھتے ہیں :

مجھے کل دہلی کے ایک مسلمان نے فون کرکے کہا :بھائی آپ یہاں سے نکل گئے آپ پر اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم کیا ہم لوگ جو یہاں رہ گئے ہیں وہ اب جان بچانے کے لیے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں اپنے ناموں کے ساتھ رام لکھتے ہیں اور اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے میں سکتے میں آ گیا، وہ بولے :جناب ہم اپنے بچوں کو بچپن میں تربیت دیتے ہیں کہ وہ باہر کسی جگہ اللہ اور اسکے رسول کا نام نہ لیں ٹھڈا لگ جائے تو زبان سے ہائے رام اور دل میں اللہ تعالیٰ کا نام لیکن ہم اس منافقت کے باوجود محفوظ نہیں ہیں اس کا کہنا تھا پاکستان کے ہر شخص کو میرا پیغام دے دیں اسے کہیں کہ دہلی کا محمد خالد کہہ رہا ہے تم ایک بار دہلی آ کر دیکھ لو، تم مان جاؤ گے پاکستان کتنی بڑی نعمت ہے لھذا اس کی قدر کرو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، تم کم از کم اپنے بچوں کے کانوں میں آذان تو کہہ لیتے ہو تم ان کے ختنے تو کرلیتے ہو، ہم تو جان بچانے کے لیے ان سے بھی تائب ہورہے ہیں

آپ فجر کی سنتیں لمبی کیوں پڑھتے ہو

نیچے ایک واقعہ درج کر رہا ہوں اسے غور سے پڑھیں اور اپنی آزاد زندگی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں

الشيخ سعد الشثري حفظه الله فرماتے ہیں :

میں نے حرمِ مکی میں ایک شخص کو دیکھا جس نے فجر کی سنتیں خاصی لمبی پڑھیں۔ میں نے سلام کے بعد اسے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتیں بہت مختصر پڑھا کرتے تھے۔ وہ شخص مسکرا کر کہنے لگا : ”آپ درست کہتے ہیں، لیکن میں ایسے ملک سے آیا ہوں جہاں ہم خوف کے باعث سکون سے نماز نہیں پڑھ سکتے، ہمیں ہر وقت اپنا یا اپنے اہلِ خانہ کا ڈر رہتا ہے۔ یہاں آ کر مجھے نماز اطمینان سے پڑھنے کا موقع نصیب ہوا ہے، تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔“

شیخ الألباني رحمہ اللہ کا ایک شخص سے مباحثہ:

استاد محترم بھٹوی صاحب رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ بعض اہل علم شیخ البانی رحمہ اللّٰہ سے مباحثہ کر رہے تھے کہ دار الکفر میں رہنے میں بھی کوئی حرج نہیں، جو دار الاسلام ہیں وہاں کونسا خالص اسلامی ذہن کے حکمران ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دار الکفر میں آپ کی بیٹی آپ کے سامنے کسی آشنا کا ہاتھ تھامے نکل جائے، کیا آپ اسے روک سکتے ہیں ؟!
اس کے پاس اس کا جواب نہ تھا۔

فرانس کا واقعہ:

فرانس میں ایک مسلمان فیملی سے ان کی بچی محض اس وجہ سے چھین لی گئی کہ گھر والے اسے تعلیم دیتے تھے کہ ہم جنس پرستی حرام ہے
یہ تو ایک واقعہ ہے اس جیسے ہزاروں کیس موجود ہیں

کفار کی غلامی پر راضی ہو کر بیٹھے رہنے والے لوگوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعلان برأت کرتے ہیں

مسلمان کو دعوت یا جہاد کے مقصد کے بغیر کفار میں رہائش رکھنا حرام ہے، کیونکہ مسلسل کفر و شرک اور بدکاری و بے حیائی کا ارتکاب دیکھ دیکھ کر یا تو ہمیشہ شدید تکلیف میں رہے گا، یا اس کی اپنی غیرت و حمیت بھی ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ اگر ایسی جگہ رہتا ہے تو وہاں سے ہجرت کا حکم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَنَا بَرِيْئٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيْمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِيْنَ ]

’’میں ہر اس مسلم سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔‘‘ [ أبوداوٗد : 2645 ]

اور فرمایا :

[ مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَ سَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ ]

’’جو شخص مشرک کے ساتھ اکٹھا رہے اور اس کے ساتھ سکونت رکھے تو یقینا وہ اسی جیسا ہے۔‘‘

[ أبو داوٗد : 2787 ]

کفار سے آزادی کی کوشش نہ کرنے والوں کو ڈانٹ

ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دار السلام کی طرف منتقل ہونا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تا قیامت باقی ہے۔

جو لوگ کفار کے ظلم و ستم اور ان کی طرف سے اسلام پر عمل پیرا ہونے کے راستے میں روڑے اٹکانے کے باوجود وہاں ہی رہتے ہیں اور ان علاقوں کو چھوڑ کر دارالسلام کی طرف نہیں نکلتے تو ایسے لوگوں کا انجام دیکھیے
فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

بے شک وہ لوگ جنھیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، کہتے ہیں تم کس کام میں تھے؟ وہ کہتے ہیں ہم اس سر زمین میں نہایت کمزور تھے۔ وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ تو یہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔
النساء : 97

یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہو چکے تھے لیکن انھوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان کو چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا، (حالانکہ انھیں ہجرت میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی) جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لیے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم دیا جا چکا تھا، اس لیے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے

لھذا ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔

آزادی کی خاطر ہجرت کرنے والے کا اجر و ثواب:

فرمایا :

وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے، وہ زمین میں پناہ کی بہت سی جگہ اور بڑی وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے موت پالے تو بے شک اس کا اجر اللہ پر ثابت ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
النساء : 100

یوسف علیہ السلام کی آزادی کی کوشش:

قید خانے میں رہنا جو بقول بعض زندوں کا قبرستان ہے، کس قدر تکلیف دہ ہے کہ یوسف علیہ السلام جیسے صابر شخص نے بھی اپنی آزادی کے لیے اس آدمی سے کہا جس کے متعلق انھوں نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہونے والا ہے کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا کہ کس طرح ایک شخص بلاجرم قید میں بند ہے۔
فرمایا :

وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

اور اس نے اس سے کہا جس کے متعلق اس نے سمجھا تھا کہ وہ دونوں میں سے رہا ہونے والا ہے کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا۔ تو شیطان نے اسے اس کے مالک سے ذکر کرنا بھلا دیا تو وہ کئی سال قید خانے میں رہا۔
یوسف :42

اللہ تعالیٰ آزادی حاصل کرنے کے لیے مکاتبت کرنے والے غلام کی ضرور مدد کرتے ہیں

پہلے تو مکاتبت سمجھ لیں کہ وہ کیا چیز ہے؟
مکاتبت یہ ہے کہ کوئی غلام اپنے مالکوں سے طے کر لے کہ اگر میں طے شدہ رقم آپ کو ادا کردوں تو آپ مجھے آزاد کردیں گے پھر وہ مطلوبہ رقم کے حصول کے لیے کوشش میں لگ جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد کرتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْنُهُمُ
الْمُكَاتَبُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْأَدَاءَ
وَالنَّاكِحُ الَّذِيْ يُرِيْدُ الْعَفَافَ
وَالْمُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ]

’’تین آدمیوں کی مدد اللہ پر حق ہے،
وہ مکاتب جو ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے
اور وہ نکاح کرنے والا جو حرام سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے
اور مجاہد فی سبیل اللہ۔‘‘ [ نسائي : 3220۔ ترمذي : 1655 ،حسنہ الألباني ]

آزادی کے لیے دعائیں کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے:

خیر و برکت والے ملک کے حصول کیلئے نوح علیہ السلام کی دعا

اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو ایک دعا سکھائی یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بے شمار اذیتوں کا نشانہ بناتے تھے، اس کے علاوہ نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا ان میں رہنا، ان کے کفر و شرک اور گندے اور غلیظ کاموں کو دیکھنا بجائے خود شدید تکلیف دہ تھا۔
فرمایا :

وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ

اور تو کہہ اے میرے رب! مجھے اتار، ایسی جگہ میں جو بابرکت ہو اور تو سب اتارنے والوں سے بہتر ہے۔
المؤمنون : 29

نوح علیہ السلام نے ظالم قوم سے آزادی ملنے پر الحمد للہ کہا

پھر جب نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہو کر ظالم قوم سے دور نکلنے لگے تو اس نجات کے شکرانے کے طور پر الحمد للہ کہا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

پھر جب تو اور جو تیرے ساتھ ہیں، کشتی پر چڑھ جاؤ تو کہہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔
المؤمنون : 28

ظالم لوگوں سے نجات پر اللہ کی حمد کا حکم اس لیے دیا کہ وہ نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بے شمار اذیتوں کا نشانہ بناتے تھے۔ اب ان سے نجات ملی، دشمن غرق ہوئے، الگ رہنے کی جگہ ملی، اپنا ماحول اور اپنی مجلس بنی، تو اس پر شکر اد اکرنے کا حکم ہوا۔

نوح علیہ السلام کی طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آزاد ملک کی دعا کی

نوح علیہ السلام والی یہی دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی ہے
فرمایا :

وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا

اور کہہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔
الإسراء : 80

یہ آیت اس وقت اتری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم دیا گیا، چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور آپ آبرو مندانہ طور پر مدینہ وارد ہوئے، انصار سے اور مہاجرین سے دین کی مدد بھی ہوئی۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

لوط علیہ السلام نے کافر قوم سے آزادی کی دعا کی:

فرمایا :

رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ

اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو اس سے نجات دے جو یہ کرتے ہیں۔
الشعراء : 169

موسی علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ ظالم قوم سے آزادی کی دعا کی، بلکہ انہیں چھوڑ کر ہجرت کی راہوں پہ چل نکلے:

موسیٰ علیہ السلام کو ایک آدمی نے بتایا کہ اے موسیٰ! سردار تمھیں قتل کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں، اس لیے فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔
یونہی آپ کے علم میں یہ بات آئی اور آپ نے سمجھا کہ اب یہاں میری جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے تو فوراً اکیلے ہی اس شہر سے نکل کھڑے ہوئے۔

فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

تو وہ ڈرتا ہوا اس سے نکل پڑا، انتظار کرتا تھا، کہا اے میرے رب! مجھے ان ظالم لوگوں سے بچالے۔
القصص : 21

آسیہ رضی اللہ عنہا کی فرعون سے آزادی کی دعا:

یہ فرعون کی بیوی تھیں، موسی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں تھیں، ایمان سے باز نہ آنے پر فرعون نے سب کچھ چھین لیا اور اسے بے پناہ اذیتیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تو انہوں نے یہ دعا کی

رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

اے میرے رب ! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔
التحريم : 11

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مظلوموں کی آزادی کے لیے دعا کرتے ہیں

اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ،

اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ اور سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید اور دیگر کمزور مومنوں کو نجات عطا فرما۔

بخاری : 1006

عمران محمدی عفا اللہ تعالیٰ عنہ

یہ بھی پڑھیں: طالب علم کے لیے پانچ اصول