ہمارے ہاں ایک عمومی مزاج بن چکا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمہ حقائق کو بھی باہم فضول مباحث میں ڈال کر حقائق کو مشکوک بنانے کی روش اپنائے ہوئے ہیں ۔ ان تمام مباحث میں، میں جو خرابی سمجھتا ہوں وہ معاملہ افراط و تفریط کا ہے ۔ مباحث سیاسی ہوں یا مذہبی آپ راہ اعتدال کو اپنائیں گے تو آپ کو عافیت نظر آئے گی ۔
ان دنوں یومِ آزادی منایا جائے یا نہیں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں ۔۔۔۔۔؟
ہاں! جب ہمارے آباؤ اجداد متحدہ ہندوستان میں گائے کی قربانی کرتے تو انہیں متشدد ہندوؤں کے بلوے کا خطرہ رہتا تھا جو کہ اب ہمیں نہیں رہا لہذا ہم آزاد ہیں ۔
جب ہمارے بڑوں کو بندے ماترم ترانہ پڑھا کر عقیدہ توحید پر ضربِ کاری لگائی جاتی تھی جو کہ اب نہیں لگتی لہذا ہم آزاد ہیں ۔- انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے ہمیں سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھا جاتا لیکن اب ایسا نہیں لہذا ہم آزاد ہیں ۔
تعلیم ،صحت، انصاف ، امن ، سیاست ، معیشت اور معاشرت میں جان بوجھ کر ہمیں نظر انداز کیا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا لہذا ہم آزاد ہیں ۔
– ہم ایک کمزور اقلیت تھے جو کہ اب نہیں رہے لہذا ہم آزاد ہیں ۔
اس طرح کے بیسویں نکات ہماری آزادی پر دلالت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔۔ذرا ٹھہریے اور سوچیے۔۔۔۔۔۔ درج بالا تمام پہلوؤں پر ہم حقیقتاً آزاد ہیں ۔۔۔۔۔ اگر آپ ایسا سمجھ رہے ہیں تو آپ دوسری انتہا کو چھو رہے ہیں ۔
بندے ماترم تو پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاتا لیکن کیا آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریزیاں نہیں کروائی جا رہیں ؟
سرکاری ملازمتوں سے محرومی تو ختم ہو گئی لیکن کیا سرکاری ملازم آج بھی انگریز کے ذہنی غلام نہیں ہیں کیا؟
گائے کی قربانی سے محروم تو نہیں رکھا جا رہا لیکن سائیفر بھیج کر پوری قوم کو قربانی کی بھینٹ نہیں چڑھا دیا گیا ؟
کیا تعلیم ،صحت، معاش، معاشرت، انصاف اور سیاست میں بیرونی دباؤ اور اس کے سامنے ہم سرنگوں نہیں ہو رہے۔۔۔۔۔
لہذا جہاں یہ انتہا ہے کہ ہم سرے سے آزادی کا انکار کر دیں یہ تاریخی حقائق سے چشم پوشی متصور ہو گی وہاں اپنے آپ کو کامل آزاد سمجھ لینا بھی دیوانگی قرار پائے گی۔
راہ اعتدال یہی معلوم پڑتی ہے کہ:
ہم آزادی کے سفر میں ہیں کچھ مقاصد حاصل کر چکے کچھ کا حصول باقی ہے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنے آپ کو کھپا دینا مطلوب مقصود ہے ۔

معظم ادریس