سوال (3012)

اذان کے بعد والی دعا پہلے پڑھیں گے یا درود ابراہیمی پڑھیں گے، یا کوئی حرج نہیں ہے، جیسے بھی پڑھ لیں، اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ اﻟﻌﺎﺹ، ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ عليه ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﺫا ﺳﻤﻌﺘﻢ اﻟﻤﺆﺫﻥ، ﻓﻘﻮﻟﻮا ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﻳﻘﻮﻝ ﺛﻢ ﺻﻠﻮا ﻋﻠﻲ، ﻓﺈﻧﻪ ﻣﻦ ﺻﻠﻰ ﻋﻠﻲ ﺻﻼﺓ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺑﻬﺎ ﻋﺸﺮا، ﺛﻢ ﺳﻠﻮا اﻟﻠﻪ ﻟﻲ اﻟﻮﺳﻴﻠﺔ، ﻓﺈﻧﻬﺎ ﻣﻨﺰﻟﺔ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ، ﻻ ﺗﻨﺒﻐﻲ ﺇﻻ ﻟﻌﺒﺪ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩ اﻟﻠﻪ، ﻭﺃﺭﺟﻮ ﺃﻥ ﺃﻛﻮﻥ ﺃﻧﺎ ﻫﻮ، ﻓﻤﻦ ﺳﺄﻝ ﻟﻲ اﻟﻮﺳﻴﻠﺔ ﺣﻠﺖ ﻟﻪ اﻟﺸﻔﺎﻋﺔ

سیدنا عبد الله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو پس بے شک جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، الله تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں، پھر الله تعالی سے میرے لیے وسیلہ مانگو پس بے شک وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا، چنانچہ جس شخص نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے (میری) شفاعت واجب ہو گئی

[صحیح مسلم ،ﺑﺎﺏ اﻟﻘﻮﻝ ﻣﺜﻞ ﻗﻮﻝ اﻟﻤﺆﺫﻥ ﻟﻤﻦ ﺳﻤﻌﻪ، ﺛﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ عليه ﻭﺳﻠﻢ ﺛﻢ ﻳﺴﺄﻝ ﻟﻪ اﻟﻮﺳﻴﻠﺔ: 384، سنن أبو داود: 523 ، سنن ترمذی: 3614 ، مسند أحمد بن حنبل: 6568 ، سنن نسائی: 678 باب اﻟﺼﻼﺓ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻌﺪ اﻷﺫاﻥ ،السنن الکبری للنسائی 1665 ، صحيح أبى عوانة : 983 ﺑﻴﺎﻥ ﺇﻳﺠﺎﺏ ﺇﺟﺎﺑﺔ اﻟﻤﺆﺫﻥ ﺇﺫا ﺃﺫﻥ، ﻭاﻟﺼﻼﺓ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺳﺆاﻝ اﻟﻮﺳﻴﻠﺔ ﻟﻪ ﻭﺛﻮاﺏ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﺫﻟﻚ،صحیح ابن خزیمہ: 418 ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ عليه ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻌﺪ ﻓﺮاﻍ ﺳﻤﺎﻉ اﻷﺫاﻥ]

آپ اس حدیث مبارک پر غور کریں تو یہ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ اذان سننے اور اس کا جواب دیے جانے کے بعد پہلے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر درود پاک پڑھا جائے گا پھر دعا وسیلہ پڑھی جائے گی، اور ائمہ محدثین کی تبویبات وعناوین بھی اسی پر دلالت کر رہے ہیں
دعا وسیلہ:

ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﺣﻴﻦ ﻳﺴﻤﻊ اﻟﻨﺪاء: اﻟﻠﻬﻢ ﺭﺏ ﻫﺬﻩ اﻟﺪﻋﻮﺓ اﻟﺘﺎﻣﺔ، ﻭاﻟﺼﻼﺓ اﻟﻘﺎﺋﻤﺔ ﺁﺕ ﻣﺤﻤﺪا اﻟﻮﺳﻴﻠﺔ ﻭاﻟﻔﻀﻴﻠﺔ، ﻭاﺑﻌﺜﻪ ﻣﻘﺎﻣﺎ ﻣﺤﻤﻮﺩا اﻟﺬﻱ ﻭﻋﺪﺗﻪ، ﺣﻠﺖ ﻟﻪ ﺷﻔﺎﻋﺘﻲ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ [صحیح البخاری : 614 ،4719]

اس دعا کا اہتمام درود پاک کے بعد کرنا ہی راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اوپر کی حدیث کا سیاق اور بعض ائمہ کی تبویب یہی بتا رہی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ