پہلے پہل یہ ہوتا تھا کہ بعض غیر مستند چیزیں سوشل میڈیا پر بلاحوالہ وائرل ہوجاتی تھیں، لیکن اب رفتہ رفتہ ایسی چیزیں سامنے آرہی ہیں جو ’حوالہ جات‘ کے ساتھ رائج ہوجاتی ہیں، حالانکہ ہوتی وہ بھی غیر مستند ہی ہیں۔ ذیل میں اس کی کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں:

1۔ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ خوش قسمت کون ہے؟ تو فرمایا: وہ شخص جس کی سانسیں رک جائیں، لیکن اس کی نیکیاں نہ رکیں۔ (البیہقی:3449)
اب دیکھنے کو یہ بظاہر ایک مستند اور باحوالہ پوسٹ ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’البیہقی‘ نام کی کوئی کتاب ابن قدامہ رحمہ اللہ کی نہیں ہے۔
یہی پوسٹ عربی میں ان الفاظ کے ساتھ وائرل ہے:

سئل ابن قدامة رحمه الله من هو السعيد؟ فقال: هو الذي إذا توقفت أنفاسه لم تتوقف حسناته.

امام صاحب کی جو کتابیں میری دسترس میں تھیں، ان میں مختلف سرچ ٹولز کے ذریعے تلاش کرکے دیکھا، ان میں ایسا کوئی قول سامنے نہیں آیا۔
اس کے باوجود یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

نوٹ: یہ مفہوم اور مضمون بالکل صحیح اور کئی ایک آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔

2۔ طبقات الحنابلۃ لابن رجب کے حوالے کے ساتھ ابن الجوزی رحمہ اللہ سے متعلق ایک پوسٹ مشہور ہے کہ اپنے شاگردوں اور حلقات میں کہا کرتے تھے کہ جب تم جنت میں جاؤ، اور مجھے وہاں نہ پاؤ تو میرے متعلق پوچھنا کہ یا اللہ تیرا فلاں بندہ ہمیں وعظ و نصیحت کیا کرتا تھا، دنیا میں ہمیں تمہاری یاد دلایا کرتا تھا، وہ کدھر ہے؟ اور پھر ابن الجوزی رحمہ اللہ رونا شروع ہوگئے۔
عربی عبارت کچھ اس طرح ہے:

قال ابن الجوزي رحمه الله:إن لم تجدوني في الجنة بينكم فاسألوا عني فقولوا : يا ربنا عبدك فلان كان يذكرنا بك !!! ثم بكى رحمه الله رحمة واسعة.

حالانکہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کے ترجمہ میں ایسی کوئی بات ابھی تک نہیں مل سکی۔ اگر کسی دوست کے پاس اس کا حوالہ ہو، تو ضرور مطلع فرمائیں۔

3۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاوی کے حوالے سے ایک قول بایں الفاظ مشہور ہے:

قال ابن تيمية رحمه الله: “مارأيت شيئاً يُغذي العقل والروح، ويحفظ الجسم، ويضمن السعادة، أكثر من إدامة النظر في كتاب الله تعالى .(مجموع الفتاوى (٤٩٣/٧)

اسی حوالے کے ساتھ یہ قول مشہور ہے، حالانکہ آپ ابھی جاکر محولہ بالا جگہ دیکھیں، وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
بلکہ یہ ایک معاصر عالم دین مصطفی السباعى رحمہ اللہ کا قول ہے، جو ان کی کتاب “هكذا علمتني الحياة” (ص:84) میں موجود ہے۔

اور بھی کئی ایک احادیث، اقوال ہیں، جو بظاہر باحوالہ ہیں، لیکن ان میں حوالہ، متن، ترجمہ وغیرہ کئی ایک چیزیں غلط مشہور ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود اہل علم و تحقیق کو اس پر توجہ کرنی چاہیے۔

مجھے ویسے اس بات پر بھی حیرانی ہوتی ہے کہ اگر آپ کو کسی چیز کے حوالے کا علم نہیں، تو کیا اسے آگے شیئر کرنا ضروری ہے؟ چلیں فرض کریں، آپ نے شیئر بھی کرنا ہے، تو اسے بلاحوالہ ہی کردیں، اپنی طرف سے غلط حوالہ لگا کر شیئر کرنا یہ تو انتہائی فاش غلطی بالکل مکروہ حرکت ہے۔
کیونکہ بلاحوالہ چیز کو پھر بھی کچھ لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور بعض اس کی تحقیق کی زحمت بھی گوارہ کرلیتے ہیں، لیکن غلط حوالہ اگر لگا ہوا ہے، تو بہت ہی کم لوگ ہیں، جنہیں دوبارہ چیک کرنے کا خیال اور شعور ہوتا ہے..!
اسی بنا پر اصولِ تحقیق میں اساتذہ یہ سکھاتے ہیں کہ محقق کو ان معاملات میں ہر ایک سے ’بدظن‘ رہنا چاہیے، تاکہ اسے خود ہر چیز کو دیکھنے اور چیک کرنے کی عادت بنے!!

#خیال_خاطر