سوال (2746)

شیخ ایک سائل کا سوال ہے کہ شوہر نے بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لی اور بچے باپ کے پاس ہیں لیکن بچوں کی شکایت ہے کہ والد شادی کے بعد بدل گئے اور جو سہولیات اپنی دوسری وائف ان کی اولاد اور اپنی والدہ کو فراہم کرتے ہیں وہ اپنی پہلی اولاد کو فراہم نہیں کرتے برابری نہیں کرتے اور اس طرح پیش نہیں آتے اور کبھی کبھار سوتیلی والدہ کی باتوں میں آ کر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں بچے اس وجہ سے اکثر اداس رہتے ہیں، تو اگر وہ اس پر صبر کریں تو ان کے لیے اجر کثیر اور آخرت میں کیا بہترین نعم البدل ہوگا اور اس صورت میں کیا وہ والد سے ان تمام باتوں کو رکھ کر علیحدگی اختیار کرلیں۔

جواب

یقیناً جو بھی صبر کرے گا، اس کو بدلہ ملے گا، وہ ان شاءاللہ جنت ہے، پھر والد کی زیادتی اور ظلم پر صبر ہے، اس لحاظ سے اجر بڑھ کر ملے گا، والد کا مقام و مرتبہ کتنا ہے، اس کو بھی سامنے رکھیں، لہذا اس کے لیے ایک ہی صورت ہے، کہ وہ صبر کرے، اس کے علاؤہ کوئی صورت نہیں ہے، کوئی ایسی صورت پیدا نہیں کرنی چاہیے کہ ہاتھ گریبان تک پہنچ جائے، باقی علیحدگی سے مراد قطع تعلقی ہے تو یہ حرام ہے، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں رہے، ہم نے جو کھانا پینا ہے، وہ ہم خود ہی دیکھ لیں، لیکن ان کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں، بھلے وہ آپ کے لیے دروازے بند رکھیں، قطع تعلقی تک بات نہ جائے، باقی آپ بھلے اپنے تک محدود رہیں۔ کوئی حرج نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ