سوال (6197)

بچے کے کان میں اذان صبح والی دینی چاہیے یا شام والی دینی چاہیے؟

جواب

نومولود کے کان میں اذان کہنے کے جواز اور عدم جواز میں علماء کے مابین اختلاف ہے۔ جائز قرار دینے والے علماء اس سے متعلق روایات کو حسن درجہ کی قرار دیتے ہیں، جبکہ عدم جواز کے قائلین ان روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ بہرحال اس عمل کا امت میں تسلسل پایا جاتا ہے جس بنا پر عدم جواز کے قائلین بھی شدید سخت موقف اختیار نہیں کرتے۔ اس معاملے میں ہمارے معاشرے کے رجحان اور تشویش کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے، کیونکہ اگر کسی بچے کے کان میں اذان نہ کہنے کی صورت میں اگر وہ بچہ بڑا ہوکر بدتمیز، بدکردار اور والدین کا نافرمان ہوا تو یقینا یہی کہا جائے گا کہ یہ بچہ ایسا بدکردار ہی ہونا تھا کیونکہ اس کے کان میں اذان نہیں کہی گئی۔ جبکہ اذان کہے گئے بچے بھی تو بدکردار ہوتے ہیں، لیکن اذان نہ کہنے کی صورت میں خرابیاں، خرافات اور نامناسب حالات کا اندیشہ ہے۔ تاہم اس عمل میں ممانعت پر زور دینے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اذان کون سی کہنی ہے؟ اس حوالے سے گزارش ہے کہ صبح کی اذان یعنی: الصلاۃ خیر من النوم، کے الفاظ والی اذان کہنا بہرصورت ایک تکلف ہے، ان الفاظ کے بغیر اذان کہی جاتی ہے، اسی پر عمل ہے، اسی کو ہی اپنانا بہتر ہے۔

فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم
منع کرنا باعث اجر وثواب ہے۔ کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔
میں نے خود بعض جگہ اس موقع پر صحیح مسئلہ بیان کیا ہے تو وہ لوگ سمجھ گئے ہیں۔
میں نے اپنی بیٹی کے کان میں اذان نہیں کہی تھی اور وہ ابھی سے بہت غور سے تسبیح وتقدیس وتمجید و تہلیل کو سنتی ہے۔
صحابہ کرام، ثقہ تابعین عظام، تبع تابعین میں سے کتنے لوگ آپ کے بیان کردہ احساس کے شکار ہوئے تھے؟ جب ایک عمل کی اصل قرآن وحدیث میں موجود نہیں اور صحابہ کرام خیر القرون کے سلف صالحین نے اسے اختیار نہیں کیا تو ہم کس بنیاد پر تواتر عملی کا دعویٰ کرتے یا کہہ دیتے ہیں۔
تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ