سوال (645)

زید نے احمد کی بیٹی کو پیدا ہوتے ہی گود لے لیا جب بے فارم بنا تو اس پر اصل باپ کی بجائے زید کا نام لکھ دیا گیا اب جب نکاح کی باری ہے تو سسرال والے بضد ہیں کہ لڑکی کے اصل باپ یعنی احمد کا نام لکھا جائے ؟ اس مسئلے کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

درست بات یہ ہے کہ بچہ کو ہر جگہ اپنے والد کی طرف منسوب کیا جائے ، البتہ اس نے اگر مجبوراً کاغذ بنالیے ہیں ، اور اس کا کوئی خاطر خواہ معاملہ سامنے نہیں آیا ہے اور پریشان ہورہے ہیں ، کیونکہ والد ہر جگہ سامنے نہیں آتا ہے ، بسا اوقات موجود بھی نہیں ہوتا ہے ، جس نے پالا وہی سامنے ہوتا ہے ، تو پریشانی ہوجاتی ہے ، اہل علم نے ابھی تک اس کا کوئی خاطر خواہ حل بھی پیش نہیں کیا ہے ، سوائے اس کے سرپرست کا خانہ ہوتا ہے اس میں بولتے ہیں کہ سرپرست کا نام دے دیں ، کبھی کچھ اور ہوتا ہے ، لیکن لوگ واقعتاً اس میں پریشان ہیں ، تو نکاح بہرحال صحیح ہوگا اگر وہ لکھ دیا جائے تو بھی ٹھیک ہے ، بس یہ دیکھ لیں کہ ایسا نہ ہو ایک کاغذ پہ ایک نام ہو اور دوسرے کاغذ پہ دوسرا نام نہ ہو پھر پریشانی نہ ہو جائے ، اس چیز کو افہام و تفہیم سے حل کریں اس پر سختی نہ کریں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ محترم، بارک اللہ فیکم!
اس سلسلے میں پہلے بھی گفتگو ہوئی، دیگر اہل علم کسی بھی مرحلے میں ولدیت کی تبدیلی کے قائل نہیں ہیں ، لیکن آپ چونکہ گنجائش کے قائل ہیں ، تو اس کے مفاسد میں سے ایک یہ صورت بھی ہے ، اگر اس میں گنجائش پیدا کی جائے تو جگہ جگہ یہ اختلافات بنیں گے!
وراثت کے معاملات اس سے بھی پیچیدہ ہوں گے!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

شیخ مسئلہ یہ ہے کہ آخرکار حل کیا ہے ، اگر مسائل وراثت کے ہو رہے ہیں تو اس کو حل کردیا جائے ، کاغذات پہ لکھ دیا جائے ، لیکن قانونا مسائل پھر قدم قدم پہ پیدا ہوتے ہیں ، نادرا ، اسکول ، کالج اور ہاسپیٹل وغیرہ کے مسائل ہوتے ہیں ، اس لیے اس میں بہت زیادہ پریشانی دیکھنے میں آ رہی ہے ، تو آخرکار اس کا حل کیا ہے ، اگر گود لیتے ہوئے وراثت کے مسائل ہوتے ہیں تو اس کو قانونی شکل دینی چاہیے ، قانونی سطح پر اس بات کو کلیئر کردیا جائے کہ یہ بچہ لے پالک ہے ، اگرچہ فتوی وہی ہے جو تمام اہل علم کا ہے ، لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے ، جس نے بھی پالا ہے ، اس نے اپنے ہی ڈاکومنٹس بنائے ہیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی آپ کی بات بجا ہے.
اس کا شرعی اور قانونی حل یہی ہو سکتا ہے کہ حکومت باقاعدہ لے پالک کے لیے الگ سے ایک کیٹیگری بنائے، جس کے اصول و ضوابط اس طرح کے ہوں کہ اس میں کوئی شرعی قباحت ہو اور نہ ہی کوئی قانونی پیچیدگی!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ