سوال (3605)
ایک مسلمان نے ایک عیسائی عورت کو مسلمان کر کے شادی کر لی، وہ عورت ایک بچے کی ماں بھی تھی، اب وہ بچہ تو اپنے اصلی والد کے نام سے ہی پکارا اور لکھا جائے گا، مگر سکول، ہسپتال، اکیڈمی یا دیگر مواقعوں پر بچے کے سرپرست کے طور پر کیا، وہ مسلمان جس نے نکاح کیا ہے، اس بچے کو اپنا نام دے سکتا ہے؟ کیونکہ ان اداروں میں سیکورٹی، فیس اور علاج وغیرہ کے لیے سرپرست کا نام لکھوانا ضروری ہوتا ہے، تو کس حد تک گنجائش نکلتی ہے اس مسئلہ میں؟ ہاں اصلی کاغذات اور وراثتی معاملات میں اس بچے کو نام اور حق نا بھی دے تب بھی کیا وہ عارضی کاغذات میں پہچان اور سرپرست کے طور پر بچے کے ساتھ اپنا نام لگا سکتا ہے؟
جواب
“ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ” [سورہ احزاب: 5]
بچے کا اصل نسب اس کے حقیقی والد کی طرف ہی منسوب ہوگا۔
اسکول یا دیگر سرکاری اداروں میں بظور “سرپرست” اپنا نام دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ یہ نسب کی تبدیلی نہ ہو۔ واضح رہے کہ یہ صرف انتظامی اور سہولت کے لیے ہے، شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ حسن سلوک اور کفالت کا یہ عمل باعثِ اجر ہوگا، ان شاء اللہ۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ