سوال (2281)

بچے کی پیدائش پر اذان دینا اور کلمہ پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

نو مولود کے کان میں اذان ، (اقامت) کہنے کے متعلق جتنی بھی روایات ہیں وہ تو ضعیف ہیں۔
سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ”

[سنن ابي داؤد: 5105]

«میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے»
عاصم بن عبیداللہ، ضعیف راوی ہے اس لیے سند ضعیف ہے۔
تنبیہ:
اذان کی آواز سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ اس جگہ سے بھاگتا ہے۔
صحیح البخاری: 608]
لہذا اگر کوئی اس نیت سے بچے کے کان میں اذان دیتا ہے، سنت سمجھے بغیر کہ بچے سے شیطان دور ہوگا، تو اس صورت میں یہ عمل جائز ہے۔ کوئی حرج نہیں۔ امت کا اس پر عمل ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

کان میں اذان کہے جانے پر پیش کی گئیں ادلہ کی مختصر حقیقت وتوضیح ملاحظہ ہو اور والعمل عليه کی توضیح بھی۔
پہلی روایت جو سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، مسند احمد وغیرہ میں ہے یہ عاصم بن عبیدالله کے سبب سخت ضعیف ہے، عاصم پر ائمہ نقاد وعلل نے جرح کر رکھی ہے اور کبار ائمہ اس کی روایت سے بچتے تھے۔
امام سفیان بن عینیہ کہتے ہیں:

ﻛﺎﻥ اﻷﺷﻴﺎﺥ ﻳﺘﻘﻮﻥ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ
[العلل ومعرفة الرجال:(٢٠٣٨) ٢/ ٢١٠ صحيح]

اور کہا:

ﻛﺎﻥ ﺑﻌﺾ اﻟﺸﻴﻮﺥ ﻳﺘﻘﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺬﻱ ﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﺭﺑﻴﻌﺔ
[ایضا: 4923]

امام احمد نے کہا:

ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﻛﺎﻥ اﻟﺸﻴﻮﺥ ﻳﻬﺎﺑﻮﻥ ﺣﺪﻳﺜﻪ
[العلل ومعرفة الرجال رواية المروذى وغيره: ١١٣]

امام ابو حاتم الرازی نے کہا:

ﻋﺎﺻﻢ ﻣﻀﻄﺮﺏ اﻟﺤﺪﻳﺚ
[علل الحدیث:1/ 410]

اور ایک روایت کے بارے امام ابو زرعہ اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں

ﻭﻻ ﻳﺒﻌﺪ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ اﻻﺿﻄﺮاﺏ ﻣﻦ ﻋﺎﺻﻢ
[ایضا:1/ 410]

امام دارقطنی نے کہا:

ﻭﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻤﺪﻧﻲ ﻳﺘﺮﻙ ﻫﻮ ﻣﻐﻔﻞ
[سؤالات البرقانی: 339]

اور کہا:

ولم یکن بالحافظ ﺭﻭاﻩ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ. ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻀﻄﺮﺏ ﻓﻴﻪ ﻓﺘﺎﺭﺓ ﻻ ﻳﺬﻛﺮ ﻓﻴﻪ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﻓﻴﺠﻌﻠﻪ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ، ﻭﺗﺎﺭﺓ ﻳﺬﻛﺮ ﻓﻴﻪ
[العلل للدارقطنی:1/ 90]

اور ایک جگہ کہا:

ﻭﻫﺬا اﻻﺿﻄﺮاﺏ ﻓﻴﻪ ﻣﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ
[العلل: 2/ 9]

ایک اور جگہ کہا:

[العلل: 2/ 22]
ﻭاﻻﺿﻄﺮاﺏ ﻓﻲ ﻫﺬا ﻣﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻷﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﺳﻲء اﻟﺤﻔﻆ

معلوم ہوا اس کے ضبط میں زیادہ خرابی تھی جو یہ اس قدر اضطراب کا شکار ہوتا تھا
امام ابن سعد نے کہا:

ﻭﻛﺎﻥ ﻛﺜﻴﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﻪ
[طبقات ابن سعد: 5/ 373]

امام ابن معین نے کہا:

ﻭﻓﻠﻴﺢ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻭاﺑﻦ ﻋﻘﻴﻞ ﻭﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﺤﺪﻳﺜﻬﻢ
[تاریخ ابن معین- روایة الدوری: 1212]

اور کہا: لیس بذاك
[التاريخ الكبير لابن ابی خیثمةالسفر الثانی: 3771]

اور کہا:

ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﺿﻌﻴﻒ ﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﺤﺪﻳﺜﻪ
[الجرح والتعدیل: 6/ 347]

امام بخاری نے کہا: منکر الحدیث
[الضعفاء الصغیر: 294]
امام ابن نمیر نے کہا:

ﻭﻋﺎﺻﻢ ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻲ اﻷﺻﻞ
[الجرح والتعدیل : 5/ 154]
ﻭﻋﺎﺻﻢ ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻲ اﻻﺻﻞ ﻭﻫﻮ ﻣﻀﻄﺮﺏ اﻟﺤﺪﻳﺚ
[الجرح والتعدیل:6/ 348]

امام ابو حاتم الرازی نے کہا:

ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻀﻄﺮﺏ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻳﻌﺘﻤﺪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻣﺎ اﻗﺮﺑﻪ ﻣﻦ اﺑﻦ ﻋﻘﻴﻞ
[الجرح والتعدیل:6/ 348]

آپ کا یہ کلام کتنا عمدہ وضاحت والا ہے اور اس جیسے راوی کی روایت سخت صعیف ہوتی ہے اور ائمہ نقاد کے نزدیک یہ راوی واقعی روایت حدیث میں قابل حجت نہیں تھا اور نہ ہے۔
جوزجانی نے کہا:

ﺿﻌﻴﻒ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻏﻤﺰ اﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ ﻓﻲ ﺣﻔﻈﻪ
[احوال الرجال: 236]

ابن حجر نے اسے سیئ الحفظ کہا ہے ۔
[النکت علی کتاب ابن الصلاح : 1/ 388]
یہ لیں جی اس پر اہم جروحات میں نے نقل کر دی ہیں باقی تفصیل کتب تراجم میں دیکھی جا سکتی ہے
اب رہا مسئلہ والعمل علیه کا تو جب روایت ہی ثابت نہیں ، بلکہ سخت صعیف ہے تو اس پر سلف صالحین عمل کیسے کر سکتے تھے اور امام ترمذی جیسے ناقد امام کیسے یہ کہہ سکتے تھے کہ اس پر عمل کیا جاتا ہے اور سلف صالحین ایک غیر ثابت عمل کی بنیاد سخت ضعیف روایت پر کیسے رکھ سکتے تھے ۔ اور وہ کون سے سلف صالحین تھے جن کا بچے کے کان میں اذن کہنے پر عمل تھا۔ ہمیں کوئی ایک مثال پیش کر دیں کہ خیرالقرون سے لے کر امام ترمذی کے زمانے تک بلکہ حافظ ابن حجر،ذہبی تک کوئی بتا دیں جنہوں نے بچے کے کان میں اذان کہی ہو یا کہنے کو مستحسن قرار دیا ہو، ہاں ابن حجر کے معاصرین سے اگر کوئی قائل و فاعل ہے بھی تو یہ ان کی خطاء ہے اور کسی کی خطاء ہمارا عقیدہ و عمل و مسلک نہیں ہے کہ اس بارے کچھ بھی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور حدیث عاصم بن عبیداللہ سمیت دیگر روایات سخت ضعیف اور موضوع ہیں
غور کریں عہد نبویہ ، عہد صحابہ و تابعین وغیرہ کے مبارک عہد میں کتنے بچے پیدا ہوئے مگر یہ اذان کا عمل مفقود ہے جبکہ عہد نبویہ صلی الله علیہ وسلم میں بچے نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لائے جاتے تو آپ انہیں گھٹی دیتے ،ان کے نام رکھتے اور یہ باتیں و عمل ہمیں صحابہ کرام و روات حدیث کے زریعے پہنچا اور بیان ہوا مگر کسی صحابی نے ایک ہی موقع پر کیے گیے عمل و ہیئت کو اذان کے ساتھ بیان و ذکر نہیں کیا وجہ کیا تھی کہ انہوں نے گھٹی و نام رکھنے کو تو بیان کیا مگر اذان جیسے عمل کو بیان نہیں کیا ہے اور اسے ہم بغیر دلیل قوی کے عدم ذکر بھی نہیں کہہ سکتے ہیں اور رہا بعض اہل علم کا اس پر عنوان قائم کرنا تو کتنی ہی ضعیف روایات پر ائمہ متن کی مناسبت سے عنوان ، تبویب قائم کر دیتے ہیں اور اگر روایت صحیح ثابت ہو تو وہ تبویب مفید ہے ورنہ نہیں ہے ۔ اور یہ جو عاصم کی روایت ہے اسے ابن القطان الفاسی، وابن حجر، ابن طاہرالمقدسی ، ابن ملقن نے ضعیف کہا ہے۔ اور امام عمر بن عبدالعزیز سے منسوب اثر باسند صحیح ثابت نہیں ہے بلکہ سخت ضعیف ہے۔
“والعمل علیه کی وضاحت”
دارلسلام والا نسخہ، دکتور بشار عواد والا نسخہ، شیخ شاکر والا نسخہ ان تینوں میں جو عبارت ہے وہ یوں ہے۔

ﻭاﻟﻌﻤﻞ ﻓﻲ اﻟﻌﻘﻴﻘﺔ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻭﺟﻪ ﻋﻦ اﻟﻐﻼﻡ ﺷﺎﺗﺎﻥ ﻣﻜﺎﻓﺌﺘﺎﻥ، ﻭﻋﻦ اﻟﺠﺎﺭﻳﺔ ﺷﺎﺓ ﻭﺭﻭﻱ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻳﻀﺎ ﺃﻧﻪ ﻋﻖ ﻋﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﺸﺎﺓ ﻭﻗﺪ ﺫﻫﺐ ﺑﻌﺾ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﺇﻟﻰ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ
[سنن ترمذی: 1514 بتحقیق احمد شاکر، و بتحقیق د: بشار عواد]

آپ دیکھ لیں امام ترمذی اذان کے بارے ہرگز نہیں فرما رہے بلکہ عقیقہ کے بارے فرما رہے ہیں کہ یہی عمل در حقیقت کیے جانا سنت ہے نہ کہ اذان والا غیر ثابت عمل جس سے کسی کو اختلاف نہیں
اب اس کی دیگر اسانید پر مختصر تبصرہ پیش خدمت ہے، اب سیدنا ابن عباس رضی الله عنه سے منسوب روایت کی حقیقت بھی دیکھ لیں جس وجہ سے رات میں اپنے موقف پر قائم تھا شعب الایمان کی یہ روایت ملاحظہ ہو۔

وأخبرنا علي بن أحمد بن عبدان أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار حدثنا محمد بن يونس حدثنا
الحسن بن عمر بن سيف السدوسي حدثنا القاسم بن مطيب عن منصور ابن صفية
عن أبي معبد عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم :أدن في أذن الحسن بن علي يوم ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في

أذنه اليسرى
آگے محدث بیہقی نے کہا: في ھذین الإسنادين ضعف [شعب الایمان: 8255]
دیکھ لیں محدث بیہقی نے معمولی ضعف کا کہا ہے ، جبکہ یہ دونوں روایتں سخت ضعیف بلکہ موضوع ہیں۔
پہلے اس روایت ابن عباس کی علل ملاحظہ ہوں ۔
(1) محمد بن یونس بن موسی ابو العباس الکدیمی کے بارے امام دارقطنی نے کہا: متروک۔
[سؤالات الحاکم: 173]
امام ابن حبان نے کہا: وکان یضع علی الثقات الحدیث وضعا۔
[المجروحین: 2/ 313]
امام ابن عدی نے کہا:

أتهم بوضع الحدیث وبسرقته وادعي رؤية قوم لم يرهم ورواية عن قوم لا يعرفون وترك عامة مشايخنا الرواية عنه

آگے شدید جروح نقل کیں پھر آخر پہ کہا:وکان ابن صاعد وشیخنا عبدالملك بن محمد كان لا يمنعان الرواية عن كل ضعيف كتبنا عنه إلا عن الكديمي فكان لا يرويان عنه لكثرة مناكيره وإن ذكرت كل ما أنكر عليه وادعاه ووضعه لطال ذاك۔
[الکامل لابن عدی: 7/ 553،555]
دیکھ لیں امام ابن عدی کتنی بڑی خبر دے گئے.
یونس الکدیمی اور اس کی وضعی روایات بارے مزید الکامل کا یہی مقام دیکھیے۔
اس پر وضع حدیث و کذب جیسی سخت جروح کے ساتھ ساتھ بعض ائمہ نے اس کی مدح و توثیق بھی کی ہے ، لیکن جب جرح مفسر و شدید ہو اور اس کا تعلق بھی خاص نقص پر اطلاع پانا ہو جسے دوسرے نہیں پا سکے تو مقدم جرح شدید ومفسر وخاص ہی ہوتی ہے تفصیل دیکھیے تاریخ بغداد میں
حافظ ذہبی نے الحافظ المکثر کہنے کے ساتھ ہی کہا وھو واہ
[تذکرۃ الحفاظ:2/ 144]
اسی طرح تاریخ الاسلام میں اقوال نقل کرنے کے باوجود کہا احدالضعفاء۔
میزان الاعتدال: 8353 میں کہا أحد المتروكين۔
ابن حجر نے بھی ضعیف کہا تقریب التہذيب
(2) یہ حسن بن عمرو بن سیف البصری العبدی ہے جس کے بارے امام بخاری نے کہا: کذاب ۔
[التاریخ الکبیر: 2/ 299 ، 2536]
امام مسلم نے کہا: متروک الحدیث
[الکنی والاسماء:1/ 559 ، 2263]
امام ابو حاتم الرازی نے کہا: ولم نکتب عنه وهو متروك الحديث۔
[الجرح والتعدیل:3/ 26]
امام ابن ابی حاتم نے جب امام ابو حاتم الرازی سے کہا کہ محمد بن مسلم اس سے روایت کرتے ہیں تو کہا:ذاك شرله۔
[الجرح والتعدیل:3/ 26]
امام ابو حاتم الرازی نے کہا:کان علی بن المدینی یتکلم فيه يكذبه۔
[الجرح والتعدیل :3/ 26]
تنبیہ:
مزی حافظ ابن حجر ،زہبی وغیرہ نے یزید بن زریع کو اس حسن بن عمرو بن سیف البصری العبدی کے ترجمہ میں ذکر کر دیا ہے جبکہ امام ابن ابی حاتم الرازی نے اسے حسن بن عمرو بن عون الباھلی البصری کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے اور اسے ہی صدوق کہا ہے دکتور بشار کے مطابق ابن معین سے منسوب رضيه کا کلام اسی حسن بن عمرو بن عون الباھلی کے بارے ہے نا کہ جس پر جرح شدید ہے کیوں یہ حسن بن عمرو بن عون ہی الباھلی ہے نا کہ حسن بن عمرو بن سیف اور یہی درست معلوم ہوتا ہے دیکھیے دکتور بشار کی توضیح تھذیب الکمال کے حاشیہ پر۔
والله اعلم۔
حافظ ذہبی نے کہا: وله غرائب وعجائب تركوه۔
[تاریخ الاسلام: 5/ 555]
البتہ یہ الباھلی سے منسوب نہیں جس پر ابن حجر ذہبی وغیرہ نے تنبیہ نہیں کی ۔
اور [المغنی فی الضعفاء: 1456]
امام ابواحمد حاکم کبیر نے کہا: متروک الحدیث ۔
[تھذیب الکمال: 6/ 228]
امام ابن عدی کا له غرائب ما ذكرت کے بعد واحاديثه حسان وأرجو أنه لابأس به على أن يحيى بن معين رضيه کہنا مفید نہیں جبکہ اس پر جرح مفسر وشدید ثابت ہو چکی۔
اور ابن عدی کا یہ کلام ہے بھی ابن معین کے راضی ہونے والے فعل کی وجہ سے جو اس کے قابل حجت ہونے بارے ناکافی ہے ایسے راوی کی روایت تو متابعت میں بھی مقبول نہیں یہی وجہ ہے کہ محدث البانی رحمہ الله نے بھی اس روایت کو موضوع کہا ہے۔
[دیکھیے الضعیفہ 6121 میں]

شيخ البانی رحمہ الله نے کہا:قلت :و فی ھذا القول تساھل کبیر ماکنت أودله أن يصدر منه
لشدة ضعف الإسنادين فإن الحديث المشارإليه فيه رجلان يضعفان الحديث وقد اغتر بمثل هذا التساهل بعض العلماء المتأخرين فقوى به حديث أبي رافع الضعيف إسناده كما بينت هناك ولو أنه علم شدة ضعفه ما قواه لأن الشديد الضعف لا ينفع
في الشواهد باتفاق العلماء ومثله حديث الترجمةهذا فإن الحسن بن عمرو( الاصل عمر) السدوسي متروك كما في التقريب وكذبه ابن المديني والبخاري۔
ومحمد بن يونس وهو الكديمي وهو كذاب وضاع وتقدمت له أحاديث
ولقد أصابني مثل أو نحو ما اصاب ذلك البعض من الاغترار بتساهل البيهقي هذا فإني قويت أو كدت أن أقوي حديث أبي رافع المشار إليه بحديث الترجمة هذافإني ذكرته كشاهد له وقد نقلت عقبه ابن القيم قول البيهقي المذكور في تضعيف الإسنادين وقلت ما عقبه ما نصه قلت: فلعل إسناد هذا خير من إسناد حديث الحسن بحديث أنه يصلح شاهدا لحديث أبي رافع
والله اعلم۔
ومع أنني تحفظت في الإستشهاد به وقد غلب علي الثقة بقول البيهقي المذكور فحسنت حديث أبي رافع به الإرواء : 1173/4/400 ولآن وقد طبع والحمدلله كتاب البيهقي: الشعب ووقفت فيه على إسناده وتبين لي شدة ضعفه فقد رجعت عن تحسين المذكور وعاد حديث أبي رافع إلى الضعف الذي يقتضي إسناده
وهذ مثال من عشرات الأمثال التي تضطرني إلى القول بأن العلم لا يقبل الجمود وأن أستمر على البحث والتحقيق حتى يأتيني اليقين والحمد لله رب العالمين۔
[الضعیفہ: 6121]

شیخ البانی رحمہ الله کے اس کلام کو بغور مطالعہ کریں کہ شیخ البانی رحمہ الله کے نزدیک حدیث ابی رافع ضعیف ہی ہے اور ساتھ میں شعب الایمان کے روات پر ائمہ نقاد کی شدید جروح بھی۔
(3) تیسرا راوی قاسم بن مطیب بھی ضعیف ہے ابن حجر نے کہا فیہ لین تقریب التہذیب۔
یہ قاسم بن مطیب گو توثیق کیا گیا یے لیکن امام ابن حبان نے بڑے پتے کی بات بتائی ہے کہتے ہیں یخطئ عمن یروی علی قلت روايته فاستحق الترك كما كثر ذلك منه۔
[المجروحین : 2/ 213]
الحاصل: یہ روایت موضوع من گھڑت ہے ، ابو رافع کی ضعیف روایت کا شاہد نہیں بنتی اور ابو رافع والی روایت کا راوی عاصم بن عبید الله منکر الحدیث عندالبخاری، و ابو حاتم الرازی مضطرب الحدیث، کثیر الخطاء متروک و مغفل ہے تقریبا تمام کبار نقاد ائمہ نے اس پر سخت جروح کی ہیں لہزا یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے ۔ اسے ابن حجر، ابن القطان، ابن نمیر ابن طاہر مقدسی نے عاصم کی وجہ سے ضعیف کہا ہے دیکھیے التلخیص الحبیر، بیان الوھم والایھام، البدرالمنیر،
اسی طرح شعب الایمان : 8254 مسند ابی یعلی وغیرہ سے ایک روایت کو رات کو بغیر تحقیق کیے پیش کیا گیا جبکہ وہ روایت بھی موضوع ہے۔
اس سند میں یحیی بن العلاء، مروان بن سالم وضاع راوی ہیں ، امام احمد نے یحیی کو کذاب یضع الحدیث کہا ، مزید سخت جروح کی ہیں ابن عدی، ابن حبان ،امام وکیع وغیری نے۔ اسی طرح مروان بن سالم پر بھی سخت جروح ہیں ، شیخ البانی نے بھی موضوع کہا دیکھیے الضعیفہ
ایک اور بھی موضوع روایت ہے اس پر بات پھر سہی۔
الحاصل:
بچے کے کان میں اذان کہنے والی روایت سخت ضعیف شواہد اس کے موضوع من گھڑت جنہیں رات میں بطور دلیل کے پیش کیا جا رہا تھا وہ بس محدث البانی رحمہ الله کے کلام پر ہی غور وفکر کر لیں کہ یہ روایت ہرگز شواہد کے ساتھ حسن کے درجہ کو نہیں پنہچتی۔
اور بعض اہل علم کا شیطان کا اذان سن کر بھاگنے پر قیاس کرتے ہوئے بچے کے کان میں اذان کہنے کا موقف بھی ہے ، جو ان کا ذاتی اجتہاد ہے مگر دین اسلام میں اس موقع پر اذان و کلمہ وغیرہ کہنے پر کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔
یہ ایک 4 سالہ پرانی تحریر ہے جس میں کچھ اضافے اختصار سے کیے ہیں.
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ