سوال (2139)
ایک شخص کی گارمنٹس کی دوکان تھی، اولاد میں 5 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں، جو دو بڑے بیٹے ہیں انہوں نے باقی بیٹوں کی نسبت والد کے ساتھ کاروبار میں زیادہ محنت کی ہے اور والد کے فوت ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے کاروبار سنبھالا۔ باقی بیٹے جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ساتھ ساتھ شامل ہوتے گئے اور کاروبار بہت حد تک وسیع ہوگیا ہے۔ اب والدین نہیں ہیں تو وراثت کی تقسیم جب ہونے لگی ہے تو بڑے بیٹوں نے وراثت میں سے زیادہ حصہ طلب کر لیا ہے اور دونوں بیٹے 20 ، 20 فیصد مانگ رہے ہیں، کل ملا کر تو 40 فیصد ان 2 بیٹوں کا اور باقی جو 60 فیصد ہے وہ برابر تقسیم ہوگا، جس میں بڑے 2 پھر حصہ دار ہوں گے، اس میں سب رضامند نہیں ہیں، شریعت کی رو سے اب اس کا کیا حل ہے؟
جواب
ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
لوگ اس حوالے سے والد کی زندگی میں رہنمائی نہیں لیتے ہیں، بعد میں بھائیوں میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو علماء سے سوال کرتے ہیں۔
بلکہ زندگی میں والد اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا ہے کہ میرے ساتھ بڑے بچے کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور چھوٹے بغیر کسی کام کیے کھا رہے ہیں، لہذا جو بچے ساتھ شریک ہیں ان کو اس معاونت کی وجہ سے کچھ اضافی دیا جائے تاکہ ان کے ذہن میں کوئی ایسی بات پیدا نہ ہو، جس سے اتفاق اور اتحاد میں خلل واقع ہو، یعنی وہ یہ سوچیں کہ ہم کماتے ہیں اور چھوٹے بیٹھ کر کھاتے ہیں اصل سارا کاروبار والد کا ہی رہے گا، یہاں تک کہ کوئی بیٹا اپنے کمائے ہوئے سے مزید اس کاروبار میں کوئی چیز شامل کر دے یہ اپنا الگ سے لے لے تو وہ اسی کا ہے، اب اصل میں بات یہاں یہ ہے کہ جب والد کے ساتھ بڑے بچے شریک ہوں تو وہ جیسے سارے بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے ان کاروبار میں شریک بچوں کی بھی کرے گا، بہرحال ان کو کاروبار میں محنت کی وجہ سے جو کہ چھوٹے بچے نہیں کرتے یہ چھوٹے بھائی کچھ اضافی دیا جائے جو ان کا کاروبار میں محنت کا معاوضہ ہو یہ کوئی ہدیہ نہیں ہے یا ضروریات کو پورا کرنے کی قبیل سے نہیں ہے کہ یہ کہا جائے یہاں برابری ضروری ہے، باقی اصل کاروبار باپ کا ہی رہے گا اور مرنے کے بعد شریعت کے ضابطے کے مطابق تقسیم ہوگا بچوں اور بچیوں میں، یہاں یہ ہوتا ہے کہ محنت کرنے والا بچہ اگر اضافی کچھ مانگ لے اور اپنی محنت کا معاوضہ طلب کرے تو اس پر والد ناراض ہوتا ہے اور معاملہ بڑی دور تک نکل جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ چیزوں کو سمجھنا چاہیے پچھلے زمانوں میں ایسا ہو سکتا ہے بلکہ ہوتا تھا کہ والد کے ساتھ جیسے جیسے بچے استعداد پکڑتے تو شریک ہوتے جاتے اور سب کی کفالت ہوتی رہتی اور اس حوالے سے کوئی زیادہ فکر موجود نہیں تھی کہ ہمیں اضافی یعنی ہماری محنت کا معاوضہ دیا جائے بہرحال اب صورتحال اور ہے اور بچے خصوصا جن کی شادیاں ہو چکی ہیں، اس حوالے سے ضرور سوچتے ہیں اور ان کی بیویاں ان کو اس حوالے سے ابھارتی رہتی ہیں کہ تم ساری محنت کرتے ہو، چھوٹے بھائی کھاتے ہیں، باقی اہل و عیال بھی تو تم اپنا حصہ ان سے مانگو بہرحال مجھے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ والد کو کاروبار میں شریک محنت کرنے والے بچوں کے لیے کچھ اضافی معاوضہ ان کی رضامندی کے ساتھ اچھے طریقے سے احسن طریقے سے گفتگو کے ذریعے متعین کر لینا چاہیے۔ تاکہ جب تک والد زندہ ہے تو لڑائی جھگڑا نہ ہو اور معاملات دگر گوں نہ ہوں،
باقی والد کے بعد وراثت تقسیم کر دی جائے ایسی صورت میں اگر چھوٹے بھائی اس مرحلے میں ہیں کہ کاروبار نہیں سنبھال سکتے تو بڑے بھائی ان کے کاروبار کی حفاظت کریں اور اس حوالے سے شریعت نے جو ضوابط الرسول مقرر کیے ہیں اس کے موافق عمل کریں۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ