سوال (2641)

ایسی تصویر کو ہاتھ سے بنانے اور ڈیجیٹل طریقہ سے بنانے کا کون سا طریقہ جائز ہے؟

جواب

تصویر ہاتھ سے بنائیں یا کیمرے سے بنائیں، ہر صورت میں تصویر حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

دونوں ہی نا جائز ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
شیخ محترم بچوں کی اصلاح کے نام سے کارٹون بنا کر چلانا اور انھیں پروموٹ کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ یہ کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ ہی اصلاح کا ٹھوس ذریعہ ہے۔
جواب:
یہ بھی حرام ہیں، آج سے چالیس سال پہلے جب کارٹون نہیں بنائے جاتے تھے، تب بہترین اصلاح ہوتی تھی، کارٹونز سے اصلاح محض دل فریبی ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

کچھ حدود و قیود کے ساتھ کئی ایک علماء نے “بچوں کی اصلاح کے لیے” کارٹون بنانے کی اجازت دی ہے۔

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

احادیث کے مقابلے میں علماء کے اقوال و فتاوی کی کیا حیثیت ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

حدیث سے ہی استدلال ہے شیخ جی، جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت ہے۔حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

قَدِمَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم مِن غَزْوَةِ تَبُوكَ أو خيبر، وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ، فَهَبَّت رِيحٌ، فَكَشَفَت نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَن بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ، لُعَب. فَقَالَ: ( مَا هَذا يَا عَائِشَةُ؟ )، قَالَت: بَنَاتِي. وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَه جَنَاحَانِ مِن رِقَاعٍ، فَقَال: ( مَا هَذَا الذِي أَرَى وَسطَهن؟ )، قَالت: فَرَسٌ. قَالَ: ( وَمَا هَذا الذي عَليه؟ )، قَالَت: جَنَاحَانِ، قَالَ: ( فَرَسٌ لَه جَناحانِ؟! )، قَالَت: أَمَا سَمِعتَ أَنَّ لِسُلَيمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ؟!، قَالَت: فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيتُ نَوَاجِذَه”

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

بچوں کا بذات خود کسی چیز کو تشکیل دے دینا یہ الگ چیز ہے، خواہ گڑیا بنالے یا گھوڑا بنالے، آپ کا بنا کر دینا یہ الگ چیز ہے، یا اس پروڈیکٹ کو اس قدر بنا کر فراہم کرنا کہ بات اس قدر بڑھ جائے کہ انسان کو گڑیا بھی دیکھ لے تو منہ اس استغفر اللہ نکل آئے، یہ ایک پرخطر وادی بن گئی ہے، اس کو سمجھ لینے کی ضرورت ہے، باقی بچوں کا بذات خود بنا لینا ایک الگ بحث ہے، وہ چیز بچوں کے ہی حوالے ہو، وہ اس کی اہانت کریں، اس چیز کو سجا لینا، اس کی کاریگری اختیار کرکے اس کو معیشت کا ذریعہ بنا لینا یہ ایک الگ چیز ہے، یہ چھوٹے پیمانے پر بت سازی ہے، یہ تصویر کا فتنہ فتنہ ہی ہے، اس کو اس طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ پھر یہاں اس تناظر سے بھی دیکھیں کہ جب اسلامک بینکنگ کہا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ لیبل لگانے سے کوئی چیز حلال نہیں ہوجاتی ہے، اب یہاں اسلامی کارٹون کیا جدید اصطلاح ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

کیا بچہ بذات خود اس فن کا ماہر ہوتا ہے؟

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

یہی چیزعرض کی تھی کہ بچہ ماہر نہیں ہوتا ہے اور بچے سے قلم بھی اٹھا لیا گیا ہے، بچوں کو آپ گاؤں دیہات میں دیکھیں کہ مٹی سے گڑیا بناتے ہیں، اسی طرح کپڑے سے بناتے ہیں، یہ الگ چیز ہے، وہ ماہر نہیں ہوتے ہیں، اس کی گنجائش الگ چیز ہے، باقی اس کو سند بنا کر جواز دینا الگ چیز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ جو مصیبت موبائل جو ہم نے پکڑی ہوئی ہے، اس سے ہمیں فرصت ہی نہیں ہے، پھر اس کے لیے کارٹون کا سہارا لیا جاتا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی جسمانی سرگرمی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، کیونکہ ہم نے اپنا بچپن دیکھا ہے، صبح اٹھتے ہی نماز، قرآن، ناشتہ، ان کے بعد اسکول یہ سرگرمیاں ہوتی تھیں، پھر ہم کھیتوں پر آجاتے تھے، اس لیے ہم بھی آج اپنے بچوں کو ٹائم دیں تو ان کارٹون وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ