سوال (4077)

خالی پلاٹ یعنی کسی نے بچوں کے لیے خرید کر رکھا ہوا ہو کہ بچوں کے کام آئے گا؟ جب بڑے ہو جائیں گے تو اب اس پلاٹ پر کیا زکوٰۃ ہے؟

جواب

جی بالکل اس پر زکوۃ ہے اور یہ تجارت اور انویسٹمنٹ کی ہی ایک صورت ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل: جیسے اپ نے بات کی کہ اگر بچوں کے لیے پلاٹ لے کر رکھا تو اس پر زکوۃ دینا لازمی ہے،
لیکن محترم میرے والد صاحب کی ڈیتھ 2021 میں ہو گئی تھی تو پھر میں نے ان کے جو پیسے ملے تھے حکومت کی طرف سے ان پیسوں سے بہنوں اور بھائیوں کے لیے پلاٹ لے کے رکھ لیے ہیں، کیونکہ ایک بہن شادی شدہ ہے اور ایک بہن ابھی گھر میں ہے تو کیا ان سب پلاٹوں پر زکوۃ میں دوں گا؟
جواب: جس پلاٹ کا مقصد پیسوں کو محفوظ کرنا یا مستقبل کے کسی منصوبے کے لیے بچا کر رکھنا ہے، یہ تجارت اور انویسٹمنٹ کی ہی ایک صورت ہے۔ جس پر زکاۃ دینا ہو گی۔
آپ کی بات سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ کے والد صاحب کی پینشن آپ لوگوں کے لیے سیونگ ہے، وہ رقم کی صورت میں رہے یا اس سے پلاٹ خرید لیں، ہر دو صورتوں میں اس پر زکاۃ دینا ہو گی، ہاں اگر یہ رقم یا اس سے خریدے ہوئے پلاٹس سب بہن بھائیوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کر دیے جائیں تو پھر اس کی کیفیت تبدیل ہو جائے گی، کیونکہ یہ احتمال ہے کہ جب سب میں ان کا حصہ تقسیم ہو تو ہر ایک کا الگ الگ حصہ نصاب کو نہ پہنچے یا پھر وہ اس میں اپنی رہائش بنا لیں، یا اسے کرائے وغیرہ پر دے دیں تو ان صورتوں میں زکاۃ نہیں ہو گی۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل: شیخ صاحب اگر وہ بچوں کی رہائش کے لیے منتخب کیا ہو یا اس نیت سے لیا ہو کہ بچے زیادہ ہیں اور جب بڑے ہوں گے تو وقت کے ساتھ ساتھ ان کو الگ گھر اور مکان بنا کر دے دیا جائے گا تو پھر بھی زکوۃ ہو گی؟ مطلب رہائشی پلاٹ پر زکوٰۃ ہو گی یا نہیں؟ سائل کے سوال میں اغلب پہلو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بچوں کا رہائشی پلاٹ ہے، مزید سائل خود بھی وضاحت فرما دیں۔
جواب: جی اتنی بات تو کنفرم ہے کہ رہائشی پلاٹ پر زکاۃ نہیں ہوتی. لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ آئندہ نسلوں کی بہتری کے لیے رکھے گئے پلاٹس کو رہائشی سمجھ لیا جائے، بچے اس وقت جس رہائش میں رہ رہے ہیں، وہ ان کی رہائش یا گھر ہے، وہ ایک ہیں یا زیادہ، ان پر زکاۃ نہیں ہو گی. لیکن مستقبل کے لیے خریدے گئے پلاٹس تجارت اور انویسٹمنٹ کی ہی صورت محسوس ہوتے ہیں. واللہ اعلم.
اس میں یہ بھی یاد رہے کہ پراپرٹی، زیورات وغیرہ کے حوالے سے بعض لوگ یہ تاویل بھي کرتے ہیں کہ اسے اپنے اپنے بیٹے بیٹيوں کے نام کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ سارا کچھ گھر کے سربراہ کے تصرف میں ہی ہوتا ہے، اور یہ کام کرنے کا مقصد زکاۃ سے بچنا ہوتا ہے، یہ بذات خود ایک مکروہ حیلہ ہے۔
مزید مشایخ رہنمائی فرما دیں.

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

آپ کی بات بالکل بجا ہے۔ رہائشی پلاٹ پر زکاۃ نہ ہونا اس وقت درست ہے جب وہ واقعی رہائش کی نیت سے رکھا گیا ہو، نہ کہ صرف زبانی نیت بلکہ عملی طور پر بھی۔ لیکن اگر پلاٹ کو آئندہ فائدے، منافع یا سرمایہ کاری کے لیے رکھا گیا ہو، تو وہ بہرحال مالِ تجارت کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر زکاۃ لازم ہو گی۔
یہ نکتہ بھی بالکل درست ہے کہ بعض لوگ چیزیں اولاد کے نام کر کے خود ہی ان کا مکمل تصرف رکھتے ہیں، اور اصل مقصد زکاۃ سے بچنا ہوتا ہے۔ یہ ظاہر داری کا ایک حیلہ ہے، جو تقویٰ کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے، اور دین میں ایسے حیلے کر کے ذمہ داری سے نہیں بچا جا سکتا۔
ایسے امور میں آدمی کو اپنے دل سے پوچھنا چاہیے کہ کیا واقعی یہ رہائش کے لیے رکھا ہے؟ اور اگر کل کو کوئی خریدار اچھی قیمت دے، تو کیا وہ بیچنے سے انکار کرے گا؟ اگر جواب “نہیں” ہے تو وہ مالِ تجارت ہے، اور زکاۃ واجب ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

گذارش یہ ہے کہ جو شخص زکاۃ سے بچنے کے لیے پلاٹ لے لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ رہائشی پلاٹ ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا ہے، یہ اس کا اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ زکاۃ کمرشل پلاٹ پر ہے، لیکن کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ پلاٹ میں نے رہائش کے لیے لیا ہے، اور بعد میں بیچ دیتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا ہے، اللہ تعالیٰ کو کون دھوکہ دے سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ