سوال (283)

کیا بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا شرعاً جائز ہیں؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ؟

جواب:

اس میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، میری ڈاکٹرز سے بات ہوئی تھی ، ڈاکٹرز کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس میں کوئی قباحت والی چیز نہیں ہے ، سلفی ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ بظاہر کوئی ایسی چیز دیکھنے میں نہیں آئی ہے ، جس کے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ بندر یا خنزیر سے کچھ لے کے اس میں ڈالا گیا ہے یا نسل کشی ہے ، سلفی ڈاکٹر نے یہ بات کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو پیدا کرکے پلوانا چاہتا ہے وہ فرعون کے گھر میں بھی پرورش پاسکتا ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

“وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ‌ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ”. [سورة آل عمران: 54]

«اور انھوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے»

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اسلام دین فطرت ہے، جوپوری انسانیت کی ہرشعبے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے ، اسلام کی پاکیزہ تعلیمات جہاں عقائد وعبادات ،معاشرت ومعاملات اور اخلاق وآداب کے تمام پہلوؤں کو جامع ہیں،وہیں حفظان صحت اور تندرستی کے معاملے میں بھی اسلام کی معتدل ہدایات موجود ہیں.
طبی نکتہ نگاہ سے ہمارے لیے لازمی و ضروری ہے کہ قدیم بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ جدید بیماریوں پر تحقیقات کرتے ہوئے ان کا علاج بھی دریافت کیا جائے. اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان گرامی نہایت قابلِ غور ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں :

“ما أنزل اللهُ داءً إلا أنزل له شفاءً”[صحیح بخاری : 5678]

«اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو»
گزشتہ ادوار میں مدارسِ دینیہ میں جہاں شرعی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی وہیں طلبہ کو شرعی علوم کے ساتھ ساتھ طب و جراحت کے فن سے بھی بخوبی آگاہ و واقف کیا جاتا تھا. جس کی بدولت فقہاء کرام جہاں اپنی کتب میں میڈیکل سے متعلقہ ابواب و فصول قائم کرکے شرعی اصولوں کے مطابق علاج معالجے کی شرائط ذکر کرتے تھے وہیں اپنی گزر اوقات کے لیے فن طبابت سے استفادہ بھی کیا کرتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب دینی اور دنیاوی علوم میں تفریق پیدا ہوئی، دینی مدارس اور دنیاوی درس گاہوں کا الگ الگ سسٹم کر دیا گیا تو میڈیکل سائنس کا شعبہ اہل دنیا کے ساتھ خاص ہو گیا جس کی وجہ سے میڈیکل سائنس کے جدید پیش آمدہ فقہی مسائل میں دنیا بھر کے اہل علم کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس بیماری کا طریقہ علاج دریافت کیا جائے اگر اس بیماری کی ادویات یا ویکسینیشن کے بارہ میں کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ مضر صحت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی ناپاک چیز ملی ہے تو ان کا پلانا جائز ہے، لہذا اس سلسلے میں دین دار ماہر ڈاکٹروں کی تصدیقات کی طرف رجوع کیا جائے، اور پلانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ اور اس بات کا اطمینان ضرور کرلیا جائے کہ کہیں اس کی تاریخ میعاد گزر نہ گئی ہو.
اگر درج بالا شرائط پوری کردی جائیں تو پولیو ویکسینیشن میں کوئی حرج نہیں ہے. البتہ محکمہ صحت کو دواء پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی اعتقاد رکھنا چاہیے کہ وہی ذاتِ پاک کسی بیماری کا کلی خاتمہ کر سکتی ہے. ورنہ کچھ ایسے کیسز بھی سننے میں آئیں ہے کہ ویکسینیشن کے استعمال کے باوجود بچوں پر اس بیماری کے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کی وجہ سے محکمہ صحت پریشان ہوا ہے۔

فضیلۃ العالم عبد العزیز آزاد حفظہ اللہ

جہاں تک ہم نے تحقیق کی ہے یہ ویکسین دو وجوہات کی بنا پر مشکوک ہے ۔
(1) : ایک وجہ یہ ہے کہ ابھی تک اس کا فارمولا کسی کو معلوم نہیں ہے کہ یہ کس سے بنی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُك” [سنن الترمذي : 2518]

«اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے»
(2) : دوسری وجہ یہ ہے کہ کس ارادہ سے محافظ اداروں کی نگرانی میں انتہائی سختی کے ساتھ ہر گھر میں پہنچائی جا رہی ہے ، بچوں کو پلائی جا رہی ہے یہ معاملہ خود شکوک وشبہات سے بالاتر نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ