سوال (2116)

اس روایت کی تحقیق اور وضاحت مطلوب ہے۔

عَنْ عَلِيٍّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَّ جِبْرَائِيلَ هَبَطَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ : ” خَيِّرْهُمْ – يَعْنِي : أَصْحَابَكَ – فِي أُسَارَى بَدْرٍ الْقَتْلَ أَوِ الْفِدَاءَ، عَلَى أَنْ يُقْتَلَ مِنْهُمْ قَابِلًا مِثْلُهُمْ . قَالُوا : الْفِدَاءَ وَ يُقْتَلُ مِنَّا.

جواب

یہ حدیث صحیح ہے شیخ البانی رحمه الله تعالى، شيخ شعیب الارناووط رحمه الله تعالى، شيخ أحمد شاکر رحمه الله وغیرہ نے صحیح اور حسن کہا ہے۔
شیخ زبیر علی زئی رحمه الله تعالى نے اسے دو وجہ سے ضعیف کہا ایک سفیان ثوری کا عنعنہ دوم ھشام بن حسان کا عنعنہ ہے۔
میں طیبی کہتا ہوں کہ امام سفیان ثوری اسانید و رجال کے عالم تھے، حتی کہ امام شعبہ جیسے بلند پایہ ناقد و جبل سے ان علوم میں فائق تھے تو بھلا وہ اپنی روایت کی مخفی علت کو کیسے نہیں جانتے تھے، آپ کتب علل کا مطالعہ کریں تو دیکھیں جن روات پر لفظ مدلس بولا گیا ہے، ان کی جن روایات کی علل بیان کیں ہیں ان میں کتنی روایات میں تدلیس و عنعنہ کو علت بیان کر کے ضعیف کہا ہے۔ صحیحین و دیگر کتب صحاح میں امام سفیان ثوری کی روایات موجود ہیں اور کئی روایات معنعن ہی ہیں آخر کیوں،
راجح یہ ہے کہ امام سفیان ثوری جیسے امیر المومنین فی الحدیث کی ہر عن کے صیغہ سے مروی روایت کو ضعیف قرار دینا ائمہ علل و نقاد کا منہج و تعامل رہا ہی نہیں ہے، الا کہ کہیں تدلیس الاسناد پر قرینہ مل جائے تو وہاں صراحت کی ہو گی اور ہم بھی قرائن کے ساتھ ہی حکم لگائیں گے ناکہ جہاں عن ملا فٹ عنعنہ کہہ کر ضعف کا حکم لگا دیا ہے، بلکہ صائب یہ ہے کہ جہاں تدلیس ہو گی وہی روایت ضعیف قرار پائے گی۔
ھشام بن حسان کی ابن سیرین سے روایت صحیح ہوتی ہے چاہے عن کے ساتھ ہو دیکھیے الجرح والتعديل
شیخ زبیر علی زئی رحمه الله تعالى کا آخری موقف اس خاص طریق پر یہی ہے دیکھیے الفتح المبین وغیرہ
اور جو بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہے تو راجح ان کا قتل کرنا ہی قرار پایا تھا، صحیح مسلم میں و دیگر کتب احادیث میں تفصیل موجود ہے۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ