اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سکینڈل کے حوالے سے بہت سی باتیں آپ نے پڑھ سن رکھی ہوں گی۔ اس سکینڈل میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا یہ تو اگر کبھی کوئی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوئیں تو ہی سامنے آئے گا، اگر کبھی ہوئیں تو۔
اس سکینڈل کے حوالے سے چند گذارشات میں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔
میرا مقصد کسی کو گناہگار یا پاک صاف ثابت کرنا نہیں بلکہ میں صرف اس سکینڈل کے چند پہلوؤں پر اپنا تجزیہ اور اپنی رائے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس سکینڈل میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ایک سادہ سی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو بھی گڑ بڑ لگتی ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ وہ سب کچھ حقیقت نہیں جو اس سکینڈل کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی گئی۔
مثلا:
جس دن یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج اعجاز شاہ کو پکڑا گیا اسی دن ایف آئی آر درج کی گئی اور اس ایف آئی آر میں دعوی کیا گیا کہ اس کے موبائل میں یونیورسٹی کی لڑکیوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز اور برہنہ تصاویر تھیں۔
فورا ہی سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز اور تصاویر کی تعداد بھی بتا دی گئی کہ اس موبائل میں 7500 تصاویر اور 5500 ویڈیوز موجود تھیں۔
تصاویر اور ویڈیوز کی اس تعداد کو من و عن نقل کر کے سوشل میڈیا پر ڈھنڈورا پیٹنے والوں اور لائکس اور ویوز کے بھوکے یوٹیوبرز اور وی لاگ کرنے والے “دانشوروں” نے یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کیا کہ
1- اتنے کم وقت میں ایک شخص کے موبائل میں موجود ویڈیوز اور تصاویر میں سے اتنی بڑی تعداد میں برہنہ ویڈیوز اور تصاویر کو شمار کرنا کیسے ممکن تھا؟
2- جن پولیس والوں نے یونیورسٹی کی لڑکیوں کو دیکھا تک نہیں تھا انہوں نے کیسے پہچان لیا کہ وہ لڑکیاں یونیورسٹی کی ہی تھیں۔
3- اگر ہر ویڈیو کا اوسطا حجم 20 ایم بی ہو تو اتنی ویڈیوز کا حجم سو جی بی سے اوپر بنتا ہے۔ کیا اتنا سارا ڈیٹا رکھنے کے لیے اس نے کوئی الگ سے ہارڈ ڈسک رکھی ہوئی تھی؟ یا اپنے زیر استعمال موبائل اس نے صرف ان ویڈیوز اور تصاویر کے لیے ہی خاص کیے ہوئے تھے؟
4- ان ویڈیوز اور تصاویر کی موجودگی کی دعویدار صرف پولیس تھی اور پولیس کا اپنا کردار اور کریڈیبیلیٹی ایسی ہے کہ تن داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔
حقیقت یہ ہے کہ یوٹیوبرز اور وی لاگرز کو اس سکینڈل کے حوالے سے اپنی ویڈیوز میں دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کے لیے پورن سائٹس سے ڈاؤنلوڈ کردہ ویڈیوز کا سہارا لینا پڑا۔
یعنی پروفیشنل فاحشاؤں کی ویڈیوز ڈانلوڈ کر کے یونیورسٹی کے کھاتے ڈال دی گئیں۔ اور اب کذب و دجل کی یہ صورتحال ہو چکی ہے کہ کوئی بھی فحش ویڈیو یا تصویر اپلوڈ کر کے ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور لکھ دیا جاتا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اسے شیئر کرنے لگتے ہیں اور ساتھ یونیورسٹی کے بارے میں خبثِ باطن کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
پولیس نے اعجاز شاہ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد جب جوڈیشل ریمانڈ کے لیے پیش کیا تو اس درخواست میں ویڈیوز اور تصاویر کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ (درخواست کی تصویر پوسٹ میں موجود ہے) اس پر جج نے انہیں پوچھا کہ تم نے کہانیاں تو کچھ اور ہی سنائی تھیں تو وہ ویڈیوز اور تصاویر کہاں ہیں تو پولیس کے پاس سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے اور کوئی جواب نہیں تھا۔ (جج کے آرڈر کی تصویر پوسٹ میں موجود ہے)
اس سارے معاملے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے اس یونیورسٹی میں پڑھانے والے تمام اساتذہ اور پڑھنے والی تمام بچیوں کے کردار کو مشکوک بنا دیا گیا۔
5500 بچیوں کی ویڈیوز اور 7500 کی تصاویر کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ اور اس پر وی لاگ کرنے والوں اور ویڈیوز بنانے والوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس پروپیگنڈے سے یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات پر کیا اثر پڑے گا؟ اور ان کی اس غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے اس بیک ورلڈ خطے میں بچیوں کی تعلیم کا مستقبل کتنا تاریک ہو سکتا ہے۔
وہ باپ ان ساری بکواسات کو سن کر کیا محسوس کرے گا جس نے اپنی عمر بھر کی کمائی اپنی بچیوں کی تعلیم پر صرف کر دی۔
اور اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم بچیاں اپنے گھر والوں کے سامنے خواہ مخواہ چور بنا دی گئیں۔
اساتذہ کے بارے میں بیان دلوایا گیا کہ ہر ڈیپارٹمنٹ کے پانچ میں سے تین اساتذہ اخلاقی اور مالی کرپشن میں ملوث ہیں۔ یعنی ساٹھ فیصد۔ مطلب 1500 میں سے کم وبیش 900 اساتذہ ان کاموں میں ملوث ہیں۔
چند دن میں اس کیس کی گرد بیٹھنے تک بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ کل پانچ اساتذہ اور گیارہ طلبہ منشیات کے کام میں ملوث ہیں۔ لیکن یہ بات بھی بغیر کسی ثبوت کے سوشل میڈیا پر ہی پھیلائی گئی اور اسے عدالت میں ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔
یعنی عدالت میں جانے سے پہلے ہی اساتذہ کے بارے میں کی جانے والی بات 60 فیصد سے 0.33 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے، اس کا ثبوت فراہم کرنا ابھی باقی ہے۔
اساتذہ پر ظلم یہ کیا گیا کہ انہیں اپنی بیٹیوں جیسی طالبات کے سامنے بلاوجہ شرمندہ کر دیا گیا۔
اور انہیں باہر کہیں یہ بتانے کے قابل نہیں چھوڑا کہ میں اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور میں استاد ہوں۔
میرا یہ سب کہنے کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ وہاں فرشتے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ وہاں پڑھنے اور پڑھانے والے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ یقینا وہاں بھی وہ تمام خوبیاں بھی موجود ہوں گی جو معاشرے میں پائی جاتی ہیں اور وہ تمام برائیاں بھی پائی جاتی ہوں گی جو اس معاشرے کا حصہ ہیں۔
ہم نے یونیورسٹی میں وہ پاکدامن بچیاں بھی دیکھی ہیں جو ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر اپنی عفت و پاکدامنی کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کر جاتی ہیں۔میرے پاس ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ اپنی کلاس کی پاکیزہ ترین بچیوں نے اپنی ہم جماعت آزاد خیال لڑکیوں سے آزاد خیالی کا کوئی بھی سبق حاصل کیے بغیر اپنی ڈگری مکمل کی۔ اور وہ اتنی ہی پاکدامن یونیورسٹی سے واپس گئیں جتنی وہ آئی تھیں بلکہ ان کی تعلیم نے انہیں اپنی عفت و پاکدامنی کی حفاظت کے حوالے سے مزید محتاط بنایا۔
اور اساتذہ میں سے ایسے اساتذہ بھی دیکھے ہیں جو اپنی طالبات کو نہ صرف بیٹیاں کہتے ہیں بلکہ حقیقتاً بیٹیاں سمجھتے بھی ہیں۔
لیکن اتنی گرد اڑانے والوں کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انہیں وہاں پائی جانے والی مالی یا اخلاقی کرپشن سے کوئی مسئلہ ہے بلکہ مقاصد کچھ اور ہی تھے جو شاید ہی مکمل طور پر سامنے آ سکیں کیوں کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کا ہمارے ہاں رواج ہی نہیں۔
اگر کسی کے پاس کسی کے خلاف کچھ تھا تو اسے اتنا شور کیے بغیر بھی پکڑ کر سزا دی جا سکتی تھی۔ اور واقعی کوئی ایسا نظام ہونا چاہیے جو اس طرح کی چیزوں کی نگرانی کرے اور اگر کوئی ان چیزوں میں ملوث ہو تو بروقت اس کی سرکوبی کی جائے لیکن لگتا ہے سزا دینا یا کسی برائی کو ختم کرنا مقصود ہی نہیں تھا۔
اگر اس سارے سکینڈل کی ٹائمنگ دیکھیں کہ یہ شور عین اس وقت کیا گیا جب وی سی صاحب کا ٹینیور ختم ہو رہا تھا اور یونیورسٹی میں فال 2023 کا داخلہ شروع ہو رہا تھا تو ہمیں دو مقاصد تو واضح طور پر سمجھ آتے ہیں:
1- وی سی صاحب کی ایکسٹینشن میں رکاوٹ پیدا کرنا۔
2- یونیورسٹی کو بدنام کر کے اس کے داخلوں کو متاثر کرنا اور پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانا۔
ان کے مقاصد کوئی بھی ہوں ادارے کی ساکھ کا بیڑہ غرق کر دیا گیا، ادارے کے اساتذہ اور وہاں پڑھنے والی بچیوں کے کردار پر اتنا گند اچھال دیا گیا کہ الاماں والحفیظ۔
یونیورسٹی، اساتذہ اور طلبہ وطالبات کے کردار پر یوں کیچڑ اچھالنے کا اثر اسی سمسٹر کے ایڈمشن میں نظر آ جائے گا۔

مقصود احمد
لیکچرر شعبہ علوم اسلامیہ
اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور، بہاولنگر کیمپس