سوال (3684)

کیا بحیرہ راہب والا واقعہ صحیح ثابت ہے؟ جو ترمذی شریف میں موجود ہے۔

جواب

حافظ ابن حجر ؒ نے الاصابہ میں 1/643 میں لکھا ہے اس روایت کے راوی بخاری والے ہیں۔
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اہل مغازی کے ہاں مشہور ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس واقعے کی اصل ثابت ہے۔ [الفصول فى السيرة: ص267]
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

امام ذھبی اس روایت پر مستدرک کی تعلیق میں کہتے ہیں أظنه موضوعا فبعضه باطل ( گمان ہے یہ گھڑی ہوئی ہے اور بعض باطل ہے)۔
سیرت ابن اسحاق میں یہ قصّہ بغیر سند کے بیان ہوا ہے۔
محدث ابن اسحاق نے کہیں یہ بیان کیا کہ اس نے یہ قصّہ کس سے سنا؟
ترمذی میں بیان کردہ یہ روایت ابو موسیٰ الاشعری سے مروی ہے۔ لیکن ابو موسیٰ اشعری نے اس واقعہ کو کس سے سنا یہ ثابت نہیں۔ کیوں کہ روایت میں یہ نہیں ہے کہ ان کو نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم نے خود اس قصّے کے بارے میں بتایا ہو کہ جب میں ١٢ سال کا تھا تو اس طرح بحیرا راہب سے ملا اور اس نے مجھ سے فلاں فلاں سوال و جواب کیے۔
حافظ ابن کثیر میں اس روایت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ترمذی، حاکم، بیہقی اور ابن عساکرنے بیان کیا ہے اس میں بعض عجیب باتیں ہیں، یہ مرسلات صحابہ میں سے ہے اس لیے کہ حضرت ابوموسی اشعری جو اس کے راوی ہیں غزوہ خیبر کے سال تشریف لائے تھے۔ اصطلاحات حدیث کی رو سے یہ حدیث معلل ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ