سوال (5474)

اگر والدین کوئی غلط بات یا غلط کام کریں مثال کے طور پر ہمارے معاشرے میں جو عمومی بات ہے کہ بہو سسرال میں ساس اور سسر کی خدمت کرے اور اگر اس میں کہیں کوئی کمی رہ جائے تو اس کو اور اپنے بیٹے کو برا بھلا کہنے لگیں تو اس صورت میں دونوں کے لیے کیا حکم ہے کیا بیٹا یا بہو تمیز کے دائرے میں ان کو منع کر سکتے ہیں کہ آپ یہ بات غلط کر رہے ہیں یا یہ کام غلط کر رہے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ عموماً والدین یہ کہتے ہیں کہ یہ لڑکی ہماری نہیں بنی جبکہ انہوں نے اس بہو کو اپنے گھر کے طور طریقے بھی نہیں بتائے اور اس کے ساتھ سلوک بھی پرایوں جیسا، کیا لیکن خود شکوہ گو ہیں کہ بہو ہماری بیٹی نہیں بنی اس صورت میں بہو کو کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے جبکہ وہ انکی حتی المقدور خدمت کرتی ہے؟

جواب

آپ کے سوال میں دو باتیں ہیں:
ایک یہ کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ادب والے معاملات، دوسری یہ کہ حق بات پر قائم رہنا اور والدین کو ان کی غلطی پر روکنا، اب حسن سلوک اور ادب کے ساتھ کیسے ان کو غلطی پر روکا جا سکتا ہے، یہ تھوڑا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔
پہلی بات ذہن میں رکھیں کہ ہماری ڈیوٹی یہ ہے کہ ادب اور احترام کے دائرے میں، رشتوں کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اپنی بات خوبصورت انداز میں کہنا ہے۔ منوانا ہماری ذمہ داری نہیں۔
والدین کے حقوق سب جانتے ہیں:

“وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا”

اسی طرح فرمایا:

“فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا”

لیکن یہ حسن سلوک اس بات کا مطلب نہیں کہ ان کی ہر بات مانی جائے
اگر غلط بات ہے تو سورہ لقمان میں فرمایا:

“وَإِن جَاهَدَاكَ… فَلَا تُطِعْهُمَا”

یعنی اگر وہ شرک یا غلط کام پر زور دیں تو اطاعت نہ کرو،
مگر انکار بھی بدتمیزی سے نہیں ہونا چاہیے۔
تو یہ اصول ہر غلط کام پر لاگو ہوگا، چاہے وہ دینی، اخلاقی، معاشرتی یا سیاسی ہو۔
مثال کے طور پر:
اگر والدین خدمت کا مطالبہ دینی فریضہ سمجھ کر کریں اور کمی پر گالیاں دیں،
تو بیٹا اور بہو دونوں کا حق ہے کہ نرمی سے، ادب کے ساتھ وضاحت کریں کہ یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔
اب انکار کیسے کریں؟
آواز نیچی رکھیں، الفاظ نرم ہوں،
سخت بات بھی نرمی سے کہی جائے۔
خلاصہ: بیٹا اور بہو دونوں ادب و حسن سلوک کے ساتھ، صحیح بات مانیں، غلط بات کا انکار کریں ، لیکن ایسے انداز میں کہ والدین کو یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی توہین ہو رہی ہے،
بلکہ نرمی، عاجزی، اور درخواست والے انداز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں۔
والدین سے شکوہ کرنے سے پہلے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جو نئی بہو یا لڑکی گھر میں آئی ہے، اسے کچھ وقت اور جگہ دی جائے تاکہ وہ اجنبی ماحول میں خود کو سنبھال سکے۔ جب ایک اجنبی کو بہت زیادہ توقعات کے بوجھ تلے رکھا جاتا ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اگر وہ لڑکی گھر میں ایڈجسٹ نہیں ہو پا رہی تو اسے اپنی بیٹی سمجھ کر پیار اور نرمی سے پیش آئیں۔ غور کریں کہ وہ والدین جو شکایت کرتے ہیں، کیا وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا بہو کے ساتھ کرتے ہیں؟ عموماً بیٹی کی غلطی پر رویہ نرم ہوتا ہے اور بہو کی غلطی پر سخت، جو کہ ناانصافی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہو اور ساس کے رشتے پر ہندوانہ ثقافت کا اثر زیادہ ہے، جس کی وجہ سے یہ جھگڑے اور مسائل بڑھ گئے ہیں۔ اگر بیٹے کی بیوی کو اپنی بیٹی سمجھ کر اپنایا جائے، تو وہ بھی خودبخود آپ کو اپنی ماں جیسا ماننے لگے گی۔ البتہ، اگر کوئی فرد خود ہی تخریب کار یا مشکل مزاج ہو تو وہ الگ بات ہے۔
یہی اصل بات ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

پیارے بھائی میری اپنی والدہ اور وائف کے درمیان ایسے مسائل رہے ہیں میں اپنے علم اور تجربہ کی روشنی میں کچھ نصیحت کروں گا۔ ہلی بات یہ کہ ہمیں اس قسم کے مسائل چار حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کو مندرجہ ذیل طریقے سے علیحدہ علیحدہ ڈیل کرنا چاہئے آپس میں مکس نہیں کرنا چاہئے۔
1۔ واالدین کی خدمت کرنا۔ یہ بیٹے کے لئے حسب استطاعت لازم ہے جبکہ بہو کے لئے مطلقا تو مستحب ہے لازم نہیں البتہ کچھ وجوہات سے بہو کے لئے بھی خدمت کرنا حسب استطاعت لازم ہو سکتی ہے مثلا ابن باز رحمہ اللہ فتاوی نور علی الدرب میں کہتے ہیں کہ جو خدمت وہاں معروف ہے وہ بہو کے لئے کرنا مشروع ہے۔ اسی طرح اگر شوہر بیوی کے خدمت کرنے کا حکم دیتا ہے تو بھی خاوند کی حسب استطاعت کرنا اس کے لئے فرض ہے اسی طرح خاوند حکم نہیں دیتا لیکن خواہش رکھتا ہے تو خاوند کا شکر گزار ہونا بھی بیوی کے لئے لازم ہے جیسا کہ حدیث ہے کہ من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ کہ جو لوگوں کا شکر گزار نہیں وہ اللہ کا کیسے شکرگزار ہو گا پس خٓاوند جس کو خرچ کرنی کی وجہ سے فضیلت ہے اسکی شکر گزاری کرتے ہوئے اسکی خواہش کا احترام کرنا چاہئے۔
البتہ اس کے لئے شوہر کو بھی چاہئے کہ وہ حسب استطاعت نوکرانی رکھ سکتا ہے تو ایسا لازمی کرے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو کم از کم بیوی کو خدمت کروانے میں اسکی استطاعت اور طبیعت کا خیال رکھے اور اسکو اتنا خوش کر دے کہ وہ خوشی خوشی یہ سب سر انجام دے کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اگر زبردستی اور طاقت کے بل بوتے پہ ایک ہاتھ سے بجانا چاہئں گے تو گھر کا ماحول آپ کی وجہ سے خراب ہو گا پس جو بیوی کی طاقت ہے وہ اسکو کرنا چاہئے اور جو شوہر بیوی کے ساتھ بہترین کر سکتا ہے اسکو کرنا بھی لازم ہے۔
2۔ والدین کی غلطی پہ انکو آگاہ کرنا اور روکنا۔ غلطی کبھی شرعی نوعیت کی ہوتی ہے یعنی کوئی حرام کام کیا جاتا ہے تو اس پہ آگاہ کرنا اور اسکو روکنا حسب استطاعت لازم ہے لیکن یہ حکمت اور پیار سے کیا جائے گا یہاں پہ اکثر شیطان آپ کے سا،نے اعمال کو مزین کرتے ہوئے باقر کرائے گا کہ غلطی سے روکنے کا مطلب والدین کو برا بھلا کہنا ہے تو اس بہکاوے میں بالکل نہیں آنا ہے۔
3۔ والدین کے غلط کام میں انکی اطاعت کرنا۔ اس میں پہلے یہ طے کیا جائے گا کہ غلطی شرعی ہے یا دنیاوی ہے اگر شرعی ہے تو لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق کے تحت انکی اطاعت نہیں ہو گی۔
البتہ اگر غلطی فقط دنیاوی نوعیت کی ہے جس میں اولاد کے پاس والدین کے غلطی پہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی واضح شرعی معیار نہیں بلکہ احتمالات موجود ہیں تو پھر بیٹے کے لئے والدین کی اطاعت کرنا حسب استطاعت لازم ہے مثلا والدین کہتے ہیں کہ ہمیں گھر میں فلاں کمرے میں رکھ لو یا فلاں کمرے میں ہمارے فلاں بچے کو رکھ لو وغیرہ۔
4۔ والدین کے ساتھ تعامل و رویہ اختیار کرنا۔
اوپر ساری چیزوں کو ایک طرف رکھ کر بیٹے اور بہو دونوں کا والدین کے ساتھ تعامل بہترین ہونا لازم ہے چاہے وہ آپ کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کرتے ہوں۔
اسکی پہلی دلیل تو قرآن کی آیت ہے کہ لا تستوی الحسنۃ ولا السیئہ۔۔۔ یعنی نہ نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتیں تم برائی کو اچھائی کے ساتھ ختم کرو یعنی جو برائے کرے تم اچھائی کرو پھر یہ فائدہ ہو گا کہ جو تمھارا دشمن ہے وہ تمھارا جگری دوست بن جائے گا لیکن یہ کام صرف صبر والے ہی کر سکتے ہیں ۔
دوسری دلیل بخاری میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ لیس الواصل بالمکافی ۔۔۔ کہ صلہ رحمی برابری میں نہیں ہوتی کہ اگلا اچھا رویہ رکھے تو رکھو گے بلکہ صلہ رحمی اس کو کہتے ہیں کہ اگلا برا ترین سلوک کرے پھر بھی آپ اچھا سلوک کرو۔
تیسری دلیل بخاری میں رسول اللہ ﷺ کا ایک بندے کو برا ترین کہنا اور پھر اس سے بہترین رویہ اختیار کرنا ہے تو جب اس کے ساتھ بہترین رویہ ہو سکتا ہے تو گھر میں برے بندے کے ساتھ بہترین رویہ کیوں نہیں ہونا چاہئے۔
پس خصوصا بیوی نے جب شوہر کے والدین کے ساتھ رویہ کو طے کرنا ہے تو انکی غلطیوں کو سامنے نہیں رکھنا لیکن اس میں شوہر کو بھی اپنے بہترین رویہ اور دل جوئی سے بیوی کی پوری مدد کرنی ہو گی تاکہ وہ اسکے والدین کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے انکے ساتھ اچھا سلوک کر سکے۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ