سوال           (120)

قرآن و حدیث کی روشنی میں بہو کے ذمہ ساس اور سسر کے حقوق کے متعلق رہنمائی فرما دیں ؟

جواب

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کے ہر معاملے کو حلال و حرام کے تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے ، اس لیے کہ ہم اپنی زندگی میں بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو فرض نہیں ہوتے ہیں ، وہ کام بھی ہم کرتے ہیں اس لیے کہ وہ ہماری معاشرتی ضرورت ہے ، جو خواتین یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ کیا ہمارے ذمے ساس و سسر کی خدمت ہے ، ان خواتین سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ کی بھابیاں آپ کے والدین کی خدمت نہ کریں تو آپ کے اوپر کیا بیتے گی ، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ کہیں گی کہ یہ تو ہم کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گی ۔ اور ان کے یہ الفاظ بھی ہونگے کہ اصل بیٹاں وہ ہوتی ہیں جو کہ جو بیٹوں کے لیے بطور بہو ہم لے کر آتے ہیں ، جو بیٹیاں ہمارے گھروں میں جنم لیتی ہیں وہ اپنے گھروں میں چلی جاتی ہیں ۔

دوسری بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا”[سنن الترمذي : 1921]

وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے

اس روایت سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بڑا کوئی بھی اس کی عزت کرنا ہمارے اوپر فرض ہے ، چجائے کوئی ایسا بڑا جس کے ساتھ ہمارا گہرا رشتہ ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

“هَلۡ جَزَآءُ الْاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ‌ۚ” [سورة الرحمن: 60]

’نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے‘۔

جو خواتین یہ سوال اٹھاتی ہیں ، اگر وہ اپنے گھر مطمئن ہیں ، اور اپنے شوہر سے خوش ہیں ۔ تو سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ شوہر کہاں سے آیا ہے ، یقینا یہ شوہر اللہ کے بعد ساس و سسر کی طرف سے تحفہ ملا ہے ، جس کے ساتھ آپ ایک سکون كی زندگی بسر کر رہی ہیں ، کیا آپ ان کے اس احسان کا بدلہ یہ دیں گی کہ وہ بوڑھاپے میں دھکے کھائیں

آخری بات یہ کہوں گا کہ یقینا آج آپ جوان ہیں کل آپ بوڑھی ہونگی کیا آپ پسند کریں گی کہ آ پ بوڑھاپے میں  میں (اولڈ ہوم ) گذارا کریں، آپ یہ پسند کریں گی کہ آپ کی بہو آپ کی خدمت  نہ کرے ، جو آپ اپنے لیے پسند کریں وہی آپ ساس و سسر کے لیے پسند کریں ۔

یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کا شوہر آپ کا حاکم ہےآپ اپنے شوہر کے حکم کی اس وقت پابند ہیں ، جب تک وہ آپ کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی مخالفت کا حکم نہیں دیتا ہے ، کیا ساس و سسر کی خدمت کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے ، اگر ساس و سسر کی خدمت کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں ہے تو آپ کو خدمت کرنی چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ