سوال (5038)

ایک بہن کا سوال ہے کہ جو ہم انسٹالمنٹ پہ چیزیں لیتے ہیں اور اس پر جو اضافی رقم ہم ان کو دیتے ہیں وہ سود ہوتا اور یہ کس بنیاد پر سود ہے؟

جواب

انسٹالمنٹ پہ چیز لینا کیسا ہے، یہ یاد رکھیں کہ اگر ہر چیز پہلے سے طے ہو جائے، اس پر لیٹ فیس کے نام پر اضافی چارجز نہ لگائے جائیں، تو یہ عرب و عجم کے نوے فیصد علماء کے نزدیک جائز ہے، لہذا ہمارے نزدیک بھی جائز ہے، جو لوگ نہیں مانتے، ان کے اپنے ادلہ ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

قسطوں کے حوالے سے کثیر اختلاف ضرور ہے۔ لیکن زیادہ صحیح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر قسطوں کی وجہ سے زیادہ قیمت پہلے طے کرکے بھی لے لی جائے پھر بھی سود ہی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،عَنْ يَحْيَی بْنِ زَكَرِيَّا،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ،فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے ایک سودے میں دو سودے کیے (یعنی ایک چیز کے دو ریٹ مقرر کیے)تو اس کے لیے ان میں سے یا تو کم قیمت ہے یا سود ہے۔‘
[ابوداود: 3461، سندہ حسن]
قسطوں پر کاروبار، جس کی نوعیت یہ ہوتی کہ نقد اور ادھار میں فرق کیاجاتا کہ نقد سو روپے کی اور قسطوں پر ایک سو بیس کی. تو شرعی طور پر یہ بیس روپے کا جو اضافہ ہے قسطوں(ادھار) کی وجہ سے یہ اضافہ سود کے حکم میں ہے۔
(اس حوالے سے شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ کا مضمون موجود ہے) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

بارك الله فيكم
جی اس مسئلہ بیع التقسیط پر کئی اہل علم وفضل نے تفصیل سے لکھا ہے جیسے ہمارے استاذ گرامی محدث نورپوری رحمه الله تعالى آپ اسے حرام اور سود کہتے تھے،مولانا امن پوری صاحب آپ جواز کے قائل تھے،مولانا بلال اشرف صاحب آپ اس کے حرام وناجائز کا موقف رکھتے تھے،اسی طرح حافظ زبیر علی زئی رحمه الله.
تو دونوں جانب سلفی علماء کرام ومشایخ عظام ہیں مگر ہمارے نزدیک احوط واولی یہی ہے کہ قسطوں کی بیع سے اجتناب کیا جائے۔والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

یہ اضافی رقم صحیح قول کے مطابق سود ہی ہے شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کا تفصیلی جواب اور مبشر ربانی رحمہ اللہ کا جواب بھی موجود ہے البتہ سوال میں اس اضافی رقم کے سود ہونے کی وجہ پوچھی گئی ہے تو میں اپنے علم کے حد تک اس کی فقہی وجہ سمجھانا چاہوں گا۔
دیکھیں اسلام میں عام فقہی قاعدہ تو یہی ہے کہ لنا الحکم علی الظاہر وربنا یتولی السرائر کہ ہمارے لئے دنیا میں دوسرے کے ظاہر پہ ہی حکم لگانا ہے البتہ ہمارا رب دلوں کے بھید جانتا ہے تو وہ خود ہی اسکا حساب لے لے گا۔ اسی کے تحت پھر وہ اسامہ ؓ یا خالد بن ولیدؓ والی کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنے کی روایات آتی ہیں۔
البتہ اسکے ساتھ ساتھ ایک استثنائی صورت بھی ہوتی ہے جب دوسرے بعض قرائن کی وجہ سے ہمیں ظاہر کے پیچھے بھی دیکھنے کا کہا گیا ہے مثلا رسول اللہ ﷺ نے زکوۃ کم کرنے کے لئے بکریوں کے ریوڑ کو اکٹھا کرنے یا علیحدہ کرنے کو جب غلط کہا تو پھر زکوۃ کا عامل پھر خالی ظاہر کو دیکھ کر زکوۃ نہیں لے گا بلکہ وہاں تحقیق بھی کر سکتا ہے یعنی ظاہر میں کچھ اور ہوتا ہے اور پردے کے پیچھے کچھ اور ہوتا ہے اسکو حیلہ بھی کہا جاتا ہے بعض الناس میں حیلے پائے جاتے ہیں۔ بالکل ایسا ایک قانون دنیا میں بھی رائج ہے جسکو lifting the corporate veil کہتے ہیں جس کے تحت عدالت جب دیکھتی ہے کہ ایک کمپنی صرف ٹیکس بچانے یا فراڈ کے لئے بظاہر بنائی ہے تو وہ اسکو ختم کر کے اس کے ایک ایک مالک کو علیحدہ علیحدہ دیکھتی ہے۔
اب اس سے ایک فقہی اصول کا پتا چلا کہ جب قرینہ موجود ہو تو ہمیں ظاہر کی بجائے حقیقت کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
مثلا ایک آدمی کسی اسلامی بینک کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے ایک سال کے لئے ایک لاکھ چاہئے دوسرے بینک والے اس پہ بیس ہزار سود مانگ رہے ہیں لیکن میں سود نہیں دینا چاہتا اسلامی بینک کہتا ہے بالکل میں تم کو ایک لاکھ بغیر سود کے ایک سال تک کے لئے دوں گا لیکن مجھے بھی وہی کچھ کمانا ہے جتنا دوسرا بینک کما رہا ہے تو ہم ایک حیلہ کر لیتے ہیں میں تم کو ایک لاکھ بغیر سود ایک سال کا قرضہ دوں گا لیکن تم میری یہ بال پوائنٹ کی دس روپے والی پنسل بیس ہزار دس روپے میں خرید لو اس میں تو کوئی شرعی قباحت نہیں کیونکہ کوئی بھی چیز ہم جتنے کی چاہئے مہنگی بیچ سکتے ہیں اور پھر یہ اسلامی بینکاری شروع ہو جاتی ہے جس میں یخادعون اللہ والذین امنوا کا معاملہ کیا جاتا ہے لیکن اللہ نے کہا ہوا ہے۔ کہ ومایخدعون الا انفسھم
بالکل اسی طرح اوپر جب قسطوں میں ایک چیز زیادہ پیسوں کی دی جاتی ہے تو وہاں ہمیں ظاہر کی بجائے حقیقت کو دیکھنا ہو گا کہ وہ کیوں زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے ظاہر ہے وہ زیادہ قیمت اس بات کی ہی ادا کر رہا ہے کہ وہ پیسوں کو استعمال کر رہا ہے پس یہ سود ہی ہو گا ورنہ کوئی بھائی مجھے یہ بتا دے کہ وہ قسطوں میں زیادہ پیسے کیوں ادا کر رہا ہے۔
دیکھیں جس کو اس زاید کے سود ہونے کی وجہ سمجھ نہیں آتی اس سے میرا سوال ہے کہ اوپر جو اسلامی بینک کا کارنامہ لکھا ہے کہ دس روپے کی پنسل کو بیس ہزار دس روپے میں بیچ رہا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ظاہر ہے یہاں ہمیں صرف اسکی ظاہر کی قیمت کو نہیں دیکھنا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ باقی لوگ جب اس پینسل کو دس روپے کی دے رہے ہیں تو یہ بیس ہزار دس میں اس اسلامی بینک سے کیوں خرید رہا ہے بالکل اسی طرح قسطوں پہ خریدنے والے سے پوچھا جائے گا کہ جب دوسرے اسکو ایک لاکھ میں چیز دے رہے ہیں تو وہی چیز وہ ایک لاکھ دس ہزار کی کس وجہ سے خرید رہا ہے جب اس وجہ کو دیکھیں گے تو بکریوں والی مثال اور lifting the corporate veil والی مثال سے سمجھ آ جائے گا۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

اس کی شرائط دیکھی جائیں گی پھر فیصلہ ہو گا کہ یہ سود ہے کہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ