سوال (165)

بيٹی کو زکاۃ دینا شرعاً جائز ہے؟

جواب:

قرآن مجید میں زکاۃ کے مصارف موجودہیں ۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

“اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ”.

’’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں خرچ کرنے کے لیے ہیں ۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے‘‘۔
بیٹی کے حوالے سے یہ بات ہے کہ اگر بیٹی شادی شدہ ہے ، اس کا کفیل اس کا شوہر ہے تو کسی صورت میں والد اس کو زکاۃ نہیں دے گا ، ہا ں اگر خاوند فوت ہوگیا ہے ، بیٹی واپس گھر آگئی ہے ، یا خلع یا طلاق کی صورت میں انہوں نے واپس بھیج دیا ہے ، پھر کفیل کی صورت میں والد بیٹی کو زکاۃ نہیں دے سکتا ہے ۔
زکاۃ رشتے دار کو اس صورت میں دی جا سکتی ہے جس کا بندہ کفیل اور ضامن نہ ہو مثلاً خاوند اپنی بیوی کو زکاۃ نہیں دے سکتا ہے ، ہا ں اگر اس کا خاوند مقروض ہو یا غریب ہو تو اس صورت میں بیوی زکاۃ دے سکتی ہے ۔ جس طرح عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر کو زکاۃ دینے کے بارے پوچھا تھا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی۔

فضیلۃالعالم عمر اثری حفظہ اللہ