سوال

باپ نے مکان فروخت کیا اور تین بیٹوں نے مل کر اس میں مزید تین تین لاکھ روپے ڈالے اور آگے مکان لے لیا، اب باپ فوت ہو گیا ہے، بچوں کی وراثت کا مسئلہ ہے، جنہوں نے حصہ ڈالا تھا وہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ہمارا وہ حصہ الگ سے نکالا جائے، اس مسئلے کا شرعی لحاظ سے کیا حل ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ہمارے معاشرتی ماحول، خصوصاً پنجاب میں عام طور پر بیٹے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک، تعاون اور عزت افزائی کے لیے مکان وغیرہ کی تعمیر میں مالی تعاون کرتے ہیں، نہ کہ بطور قرض یا شراکت۔ لہٰذا اگر بیٹوں نے مکان میں پیسے دیے ہوں لیکن باپ کی زندگی میں یہ واضح نہ کیا گیا ہو کہ یہ رقم بطور قرض، ادھار یا شراکت ہے اور نہ کوئی تحریری ثبوت یا گواہی ہو تو ایسی رقم شرعاً باپ کی ملکیت شمار ہوگی، اور مکان مکمل ترکہ مانا جائے گا، جو تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

البتہ اگر واضح ثبوت موجود ہوں، جیسے کوئی دستاویز، یا گواہان کی شہادت ہو کہ یہ رقم تعاون کے طور پر نہیں دی گئی تھی بلکہ بطور قرض یا شراکت دی گئی تھی اور یہ فروخت یا تقسیم کے وقت واپس لے لی جائے گی تو اس صورت میں بیٹوں کو ان کا حصہ/رقم نکال کر پہلے واپس دی جائے گی، پھر باقی حصہ اور ترکہ تمام ورثاء میں انکے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔

اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تین بیٹوں  نے مکان میں یہ رقم اپنے حصے اور شراکت کے طور پر دی تھی تو پھر تقسیم کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ جب یہ مکان فروخت یا تقسیم کرنے لگیں تو فیصد کا حساب نکال لیں کہ یہ مکان خریدتے وقت باپ کی رقم اتنے فیصد اور بیٹوں کی اتنے فیصد تھی اور پھر اسی تناسب سے بیٹوں کا لگایا ہوا فیصدی حصہ مکان کی موجودہ مالیت کے حساب سے الگ کرکے بیٹوں کو دے دیا جائے اور باپ کا باقی فیصدی حصہ وراثت میں تقسیم کردیا جائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ