سوال

بیوہ کی عدت کے بارے میں سوال ہے، بیوہ کے دو بیٹے ہیں اور دونوں بیٹے ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں۔ بیوہ کی کوئی بیٹی نہیں، شوہر کی وفات سے پہلے بیوہ اسلام آباد والے گھر میں رہ رہی تھیں، جبکہ گھر کے اوپر والے پورشن میں بیوہ کی بھانجی اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں جبکہ بھانجی کے شوہر ملک سے باہر ہوتے ہیں۔

کیا بیوہ کے لیے اسلام آباد والے گھر میں عدت گزارنا لازم ہے یا وہ بیرون ملک اپنے بیٹے کے گھر جا کر عدت گزار سکتی ہیں؟ شرعی رہنمائی فرمائیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

خاوندکی جس گھر میں وفات ہوئی اور جس گھر میں خاوند رہ رہا تھا بیوہ وہیں عدت گزارے گی۔

حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کا خاوند گھر سے باہر کسی دوسرے مقام پرقتل کردیا گیا اوراس کا مکان انتہائی وحشت ناک مقام پر واقع تھا۔ پھر وہ اس کی ملکیت بھی نہ تھا۔ ان کی بیوہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ مجھے والدین اوربہن بھائیوں کے ہاں منتقل ہونے کی رخصت دی جائے تاکہ عدت کے ایام امن وسکون سے وہاں گزارسکوں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«امْكُثِي فِي بَيْتِكِ الَّذِي أَتَاكِ فِيهِ نَعْيُ زَوْجِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ».

’’اپنے اسی گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی ہے یہاں تک کہ عدت کے ایام پورے ہو جائیں‘‘۔ [مسند أحمد 45/ 28 رقم  27087ط الرسالة]

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

“اجْلِسِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ”.

’’اپنے گھر ہی میں رہو حتیٰ کہ عدت پوری ہو جائے‘‘۔ [سنن الترمذی: 1204، سنن النسائی: ۳۵۵۸ واللفظ لہ]

یعنی کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی  اجازت نہیں۔

حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کا موقف ہے کہ عورت عدت گزارنے کی پابند ہے، خواہ وہ کہیں بھی گزارے۔ [سنن النسائی : ۳۵۶۱]

ام المؤمنین سیدہ عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی عظمت و شان اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے فیصلے کی تائید میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی  واضح حدیث ہے جس سے استدلال کرتے ہوئے انہوں نے یہ فیصلہ اور فتوی دیا ہے۔ دیگر صحابہ میں سے بھی اکثریت کا یہی موقف تھا۔ امام ترمذی اس حدیث کو ذکر  کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

«‌وَالعَمَلُ ‌عَلَى ‌هَذَا ‌الحَدِيثِ ‌عِنْدَ ‌أَكْثَرِ ‌أَهْلِ ‌العِلْمِ ‌مِنْ ‌أَصْحَابِ ‌النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‌وَغَيْرِهِمْ: ‌لَمْ ‌يَرَوْا ‌لِلْمُعْتَدَّةِ ‌أَنْ ‌تَنْتَقِلَ ‌مِنْ ‌بَيْتِ ‌زَوْجِهَا ‌حَتَّى ‌تَنْقَضِيَ ‌عِدَّتُهَا».

’ صحابہ  اور بعد کے اہل علم میں سے اکثریت کا عمل اسی حدیث کے مطابق ہے کہ  وہ عدت گزارنے سے پہلے عورت کے لیے خاوند کے گھر سے منتقل  ہونا درست نہیں سمجھتے‘۔ [سنن الترمذي 3/ 501]

ہاں البتہ انتہائی اضطرار اور سخت مجبوری کی صورت میں بیوہ کو دورانِ عدت خاوند کا گھر چھوڑنے کی اجازت دی جاسکتی ہے، کیونکہ اضطرار میں ایسی گنجائش ہوتی ہے جو عام حالات میں نہیں دی جا سکتی۔

لیکن صورت مذکورہ میں ایسا کوئی اضطرار سمجھ میں نہیں آتا، لہذا مذکورہ بالا دلائل کی بنا پر مذکورہ عورت عدت اپنے گھر اسلام آباد ہی میں گزارے گی۔ واللہ اعلم

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ