سوال (2074)
سوال میں دیوبند مکتبہ فکر کا ایک فتویٰ ذکر کیا جاتا ہے، مشائخ اس کی تصدیق کریں کیا یہ صحیح ہے۔
باکرہ عورت اگر کسی کو دودھ پلا دے تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی یا نہیں؟
جواب
اگر باکرہ عورت کی عمر نو (9) سال سے کم ہو، اور وہ کسی بچے کو دودھ پلا دے، تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوگی، اور اگر باکرہ عورت کی عمر نو (9) سال یا اس سے زیادہ ہو، اور وہ کسی بچے کو مدتِ رضاعت (ڈھائی سال) کے اندر اندر دودھ پلادے، تو ایسی صورت میں حرمتِ رضاعت ثابت ہوجائے گی اور وہ باکر ہ عورت بچے کی رضاعی ماں شمار ہوگی، اور اُس عورت اور بچے کے درمیان حرمتِ رضاعت کے تمام احکام ثابت ہوجائیں گے۔
تبیین الحقائق میں ہے:
“قال – رحمه الله – (ولبن البكر والميتة محرم) أي مثبت للحرمة أما لبن البكر فلإطلاق النصوص؛ ولأنه سبب النشوء والنمو فيثبت به شبهة البعضية كلبن غيرها من النساء إذ هو لبن حقيقة.”
[كتاب الرضاع، ٢/ ١٨٥، ط: دارالكتاب الإسلامي]
البحرالرائق میں ہے:
“(قوله: ولبن البكر، والميتة يحرم) أي موجب للحرمة بشرط أن تكون البكر بلغت تسع سنين فأكثر أما لو لم تبلغ تسع سنين فنزل لها لبن فأرضعت به صبيا لم يتعلق به تحريم كذا في الجوهرة، وفي الخانية: لو أرضعت البكر صبيا صارت أما للصبي وتثبت جميع أحكام الرضاع بينهما حتى لو تزوجت البكر رجلا ثم طلقها قبل الدخول بها كان لهذا الزوج أن يتزوج الصبية، وإن طلقها بعد الدخول بها لا يكون له أن يتزوجها لأنها صارت من الربائب التي دخل بأمها.”
[كتاب الرضاع، ٣/ ٢٤٥، ط: دارالكتاب الإسلامي]
فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے :
“بكر لم تتزوج لو نزل لها لبن فأرضعت صبيا صارت أما للصبي وتثبت جميع أحكام الرضاع بينهما حتى لو تزوجت البكر رجلا ثم طلقها قبل الدخول بها لهذا الزوج أن يتزوج الصبية وإن طلقها بعد الدخول لا يكون له أن يتزوجها كذا في خزانة المفتين.”
[کتاب الرضاع، ١/ ٣٤٤، ط: دار الفکر]
وفیہ أيضاً:
“ولو أن صبية لم تبلغ تسع سنين نزل لها اللبن فأرضعت به صبيا لم يتعلق به تحريم وإنما يتعلق التحريم به إذا حصل من بنت تسع سنين فصاعدا كذا في الجوهرة النيرة. وكذا لو نزل للبكر ماء أصفر لا يثبت من إرضاعه تحريم هكذا في فتح القدير.”
[کتاب الرضاع، ١/ ٣٤٤، ط: دار الفکر]
فقط والله أعلم
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
جواب :
انصارى شافعى نے كتاب أسنى المطالب میں لکھا ہے :
وَهِيَ ثَلَاثَةٌ الْأَوَّلُ الْمُرْضِعُ فَيُشْتَرَطُ كَوْنُهَا امْرَأَةً حَيَّةً بَلَغَتْ سِنَّ الْحَيْضِ ، وَإِنْ لَمْ تَلِدْ وَلَمْ يُحْكَمْ بِبُلُوغِهَا سَوَاءٌ أَكَانَتْ مُزَوَّجَةً أَمْ بِكْرًا أَمْ غَيْرَهُمَا…
رضاع کے تین رکن ہیں : اول: دودھ دینے والی عورت کا زندہ ہونا ضروری ہے اور وہ حیض کی عمر کو پہنچی ہو ، بچہ جننا ضروری نہیں ہے اور بالغ ہونا بھی ضروری نہیں ہے، اس میں بھی فرق نہیں ہے کہ لڑکی شادی شدہ ہو یا شادی شدہ نہ ہو۔
[أسنى المطالب في شرح روض الطالب ج : 3 ص415 المؤلف : زكريا بن محمد بن زكريا الأنصاري، زين الدين أبو يحيى السنيكي عدد الأجزاء: 4، الناشر: دار الكتاب الإسلامي]
بجيرمى نے بھی منهج الطلاب کے حاشیے میں یہی بات نقل کی ہے :
(أَرْكَانُهُ) ثَلَاثَةٌ (رَضِيعٌ، وَلَبَنٌ، وَمُرْضِعٌ، وَشُرِطَ فِيهِ كَوْنُهُ آدَمِيَّةً حَيَّةً) حَيَاةً مُسْتَقِرَّةً (بَلَغَتْ) وَلَوْ بِكْرًا (سِنَّ حَيْضٍ) أَيْ: تِسْعَ سِنِينَ قَمَرِيَّةً تَقْرِيبِيَّةً
رضاع کے لئے تین رکن ہیں: دودھ پینے والا، دودھ، اور دودھ پلانے والا، دودھ پلانے والی عورت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ انسان ہو، زندہ ہو اور بالغ ہوئی ہو یہاں تک کہ باکرہ بھی ہو اور حیض کی عمر کو پہنچی ہو۔ یعنی تقربا قمری ۹ سال مکمل ہوئی ہو۔
[حاشية البجيرمي على شرح المنهج ج4 ص97 المؤلف: سليمان بن محمد بن عمر البُجَيْرَمِيّ المصري الشافعي (المتوفى: 1221هـ)، الناشر: مطبعة الحلبي، الطبعة: بدون طبعة،تاريخ النشر: 1369هـ – 1950م، عدد الأجزاء:4]
بغوى نے السنة کی شرح میں لکھا ہے :
“وَإِذا نزل للبكر لبن، فأرضعت بِهِ صَبيا، تثبت الْحُرْمَة إِذا كَانَت فِي سنّ يحْتَمل فِيهَا الْبلُوغ، وَهِي تسع سِنِين”
«اگر کسی باکرہ عورت سے دودھ نکلے اور وہ کسی بچے کو دودھ پلائے تو محرمیت ثبت ہوگی ،لیکن شرط یہ ہے بلوغ کی عمر میں ہو اور ۹ سال کا ہو»
[شرح السنة ج9 ص79 المؤلف: محيي السنة، أبو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ)، تحقيق: شعيب الأرنؤوط-محمد زهير الشاويش، الناشر: المكتب الإسلامي- دمشق، بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ – 1983م، عدد الأجزاء: 15]
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
میرے علم کے مطابق فتویٰ درست ہے، شاید عمر کی حد محل نظر ہے، اگرچہ نو سال کے مباحث جو آئے ہیں، اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے، لیکن نو سال حتمی نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ