بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے والے میاں بیوی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔

اس جوڑے کے بارے میں مختلف خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں:
پہلی یہ کہ اس لڑکی کا نام شیتل تھا اور لڑکے کا زرک۔ انہوں نے ڈیڑھ سال پہلے پسند کی شادی کی تھی اور اب لڑکی کے قبیلے نے دعوت کے بہانے انہیں بلایا اور ویرانے میں لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نےاس عورت کو محبت پر قربان ہونے والی اور اس واقعے کو عشق کا امتحان قرار دیا۔
دوسری خبر یہ ہے کہ اس لڑکی کا نام ماہ بانو اور لڑکے کا نام احسان سمالانی تھا۔ یہ لڑکی کم و بیش بیس برس پہلے سے شادی شدہ اور پانچ بچوں کی ماں تھی۔ جن میں سے ایک بیٹا سترہ سال کا، دوسرا پندرہ سال کا، تیسری بیٹی نو سال کی، چوتھا بیٹا پانچ سال کا اور آخری بیٹا دو سال کا تھا۔ کچھ عرصہ قبل یہ شادی شدہ لڑکی اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر احسان سمالانی نامی لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔ وہ لڑکا بھی برا ثابت ہوا اور کچھ عرصے بعد لڑکی واپس اپنے سابقہ شوہر کے پاس آ گئی۔ احسان سمالانی کو اس کے علاقے سے نکال دیا گیا کہ دوبارہ تم نے یہاں نہیں آنا۔ لڑکی کا شوہر اپنی بیوی کو لے کر گھر سے کچھ عرصے کے لیے دور چلا گیا تاکہ معاملے کی گرد دب جائے۔ جب شوہر واپس کوئٹہ لوٹا تو اس لڑکی نے پھر احسان سمالانی کے ساتھ رابطے شروع کر دیے۔ احسان سمالانی نے ٹک ٹاک وغیرہ پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی اپلوڈ کیں جن میں ماہ نور کے شوہر اور اس کے عزیز و اقارب پر طنز پایا جاتا تھا۔ لڑکی کے قبیلے نے اس لڑکے کو قتل کرنے کی کوشش کی تو لڑکے کے قبیلے والوں نے کہا کہ اگر قتل کرنا ہے تو دونوں کو کریں۔ یوں دونوں قبیلوں نے مل کر ماورائے عدالت ان دونوں کو قتل کر دیا۔
کچھ اور کہانیاں بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
انہیں دو تین ماہ قبل قتل کیا گیا لیکن پولیس سمیت سارے حکومتی ادارے سوئے رہے۔ اب کہیں سے اس کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو شور اٹھا۔
تاحال مستند خبر تو کوئی بھی نہیں، ہو سکتا ہے حقائق کچھ اور ہوں لیکن دوسری خبر میں صورتحال پہلی کی نسبت زیادہ قبیح ہے۔ میں نے دوسری خبر اس لیے ذکر نہیں کی کہ اس سے ان کے قتل کا جواز ثابت کیا جا سکے بلکہ اس لیے بیان کی ہے کہ اگر ایسا بھی ہوا ہے تو بھی انہیں قتل کرنے کا اختیار کسی کو نہیں تھا۔
ہم ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے جواز کے قائل نہیں ہیں لیکن کسی بھی طور پر اولیاء کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پسند کی شادی کرنے والی عورت کو قتل کر دیں۔ جس طرح لڑکی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے اولیاء کے بغیر نکاح کر لے بالکل ویسے ہی اولیاء کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکی کو قتل کر دیں۔ بھاگ کر شادی کرنا جرم ہے لیکن کسی کو قتل کر دینا اس سے کہیں زیادہ قبیح جرم ہے۔
اس واقعے کو بنیاد بنا کر لبرلز اور کچھ مولوی مخالف افراد کو زہر اگلنے کا موقع مل گیا۔ کل ایک صاحب کی پوسٹ نظر سے گزری جو یہ فرما رہے تھے کہ یہ قتل وہاں کے مولویوں کے حکم پر ہوا انہوں نے کچھ اور قتل بھی اس طرح کے گنوانے کی کوشش کی کہ فلاں فلاں قتل میں بھی مولویوں کا مشورہ شامل تھا۔
نہ جانے لوگ اتنی سینہ زوری کے ساتھ منافقت کیسے کر لیتے ہیں۔ آپ مجھے کسی ایک عالم کا فتوی دکھا دیجیے جو یہ کہتا ہو کہ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکی کو مار دینا چاہیے۔ (بشرطیکہ وہ عالم ہو کوئی مفتی عبدالقوی نہ ہو)
اس طرح کا کوئی بھی واقعہ ہو جائے تو ہمارے لبرل طبقے کو پھپے کٹنیوں کی طرح پِٹ سیاپا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن یہ دل سے چاہتے ہیں کہ انہیں اس طرح کے مواقع ملتے رہیں۔ یہ ایسی خرابیوں کا حل نہیں چاہتے۔
اسلام نے ایسی خرابیوں کا حل پیش کیا ہے کہ

“أَنَّ ٱلنَّفۡسَ بِٱلنَّفۡسِ” [سُورَةُ المَائـِدَةِ: ٤٥]

ہر ناحق جان کے بدلے قاتل کو مار دیا جائے۔
لبرل طبقہ اس واقعے میں دو خرابیاں کر رہا ہے:
پہلی یہ کہ پسند کی شادی کرنے پر عورت کے قتل ہونے پر واویلا جاری ہے، یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اس کے ساتھ اس کے شوہر کو بھی اس سے زیادہ اذیت کے ساتھ مارا گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پہلے اس کی بیوی کو قتل کیا گیا، پھر بیوی سے دو گنا زیادہ گولیاں اس شوہر پر برسائی گئیں اور اس پر تیسرا ظلم یہ کیا گیا کہ اس کے قتل کو دبا دیا گیا۔ اب ذکر صرف عورت کا کیا جا رہا ہے کیونکہ پیسے عورتوں کے بارے میں واویلا کرنے پر ملتے ہیں۔ مرد مر گیا تو کوئی بات نہیں۔ انہیں جرم سے کوئی مسئلہ نہیں انہیں اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے کا موقع چاہیے۔ انہیں کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں عورت محفوظ نہیں۔
دوسری خرابی ہمیشہ کی طرح یہ طبقہ یہ کر رہا ہے کہ انہیں اس کا حل نہیں چاہیے۔ انہیں صرف رونے پیٹنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع چاہیے۔
آپ کسی بھی مسلک کے عالم سے فتوی لے لیں، آپ کو یہ فتوی مل جائے گا کہ جنہوں نے اس جوڑے کے قتل کا فیصلہ کیا اور اس مجمعے سے جتنے لوگوں نے اس عورت اور اس کے شوہر پر گولیاں برسائیں اور جنہوں نے انہیں گولیاں برسانے کا حکم دیا ان سب کو قصاصا قتل کیا جائے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ فتوی بھی دے دے کہ اس مجمع میں جتنے لوگ موجود تھے وہ سبھی ان میاں بیوی کو قتل کرنے کے لیے ہی آئے تھے اس لیے ان سب کو قصاصا قتل کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

“لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّهُمْ اللَّهُ فِي النَّارِ [رواه الترمذي: (1398)وصححه الألباني]

اگر آسمان اور زمین والے سب کے سب کسی ایک مومن کے قتل میں ملوث ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو آگ میں گرا دے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں یمن کے دارالحکومت صنعاء میں پانچ یا سات لوگوں نے مل کر ایک آدمی کو قتل کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اگر اس کے قتل میں صنعاء شہر کے سارے لوگ ملوث ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا۔
فساد کی جڑ کو ختم کرنے کے لیے آواز بلند کیجئے۔ یہ مطالبہ کریں کہ اس مجمع میں جتنے لوگ موجود تھے جنہوں نے ان دونوں کی قتل میں کسی بھی طرح کا حصہ ڈالا انہیں قصاصا قتل کیا جائے لیکن لبرل طبقے کی ماں مر جائے گی یہ ایسا کبھی نہیں کہیں گے۔ جب شرعی سزاؤں کی بات ہوتی ہے تو لبرل طبقے کو یہ سزائیں وحشی سزائیں لگتی ہیں اور جب اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے اس وقت بھی اسلام کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
اس ایک واقعہ میں اسلامی سزا نافذ کر دیں، ہر اس شخص کو قتل کر دیں جو اس قتل میں ملوث تھا۔ اگر اس قتل کا حکم کسی مولوی نے دیا تو اسے لٹکائیں اور اگر اس کا حکم کسی جرگے نے، کسی سیاسی وڈیرے نے یا کسی پنچایت نے دیا تو ان کو لٹکائیں آئندہ غیرت کے نام پہ قتل ہونے بند ہو جائیں گے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ بلوچستان وغیرہ میں اس طرح کے مقدمات میں مدعی حکومت ہوتی ہے اور حکومت بھی خاموش ہی رہتی اگر سوشل میڈیا پر اتنا شور نہ ہوتا۔ سوشل میڈیا پر یہ شور دب جانے دیجئے حکومت خاموشی سے مقدمے کی پیروی سے پیچھے ہٹ جائے گی اور اس طرح کے قتل آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

مقصود احمد

یہ بھی پڑھیں:پروفیسر ڈاکٹر حافظ طاھر محمود حفظہ اللہ کو “عالم الجامعہ” کا خطاب!