سوال (2175)

کسی شخص نے طلوعِ فجر سے لے کر عصر تک یا ظہر تک کچھ نہ کھایا پیا ہو، کیا وہ اس وقت نفلی روزے کی نیت کر سکتا ہے؟

جواب

نفلی روزے میں ایسا نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ زوال شمس سے پہلے تک کچھ نہیں کھایا تو نفلی روزہ کی نیت کر سکتا ہے، کیونکہ روزہ کا اطلاق طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا ہوتا ہے، یہاں مسئلہ اصل نفلی روزے کی نیت کا ہے کہ وہ طلوع فجر سے پہلے ضروری نہیں ہے، بلکہ طلوع فجر کے بعد بھی کی جا سکتی ہے۔
اس بارے حافظ نووی کی تبویب صحیح مسلم میں ملاحظہ فرمائیں

“ﺑﺎﺏ ﺟﻮاﺯ ﺻﻮﻡ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ ﺑﻨﻴﺔ ﻣﻦ اﻟﻨﻬﺎﺭ ﻗﺒﻞ اﻟﺰﻭاﻝ، ﻭﺟﻮاﺯ ﻓﻄﺮ الصائم ﻧﻔﻼ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻋﺬﺭ”

یہ تبویب اس حدیث پر ہے۔

ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺃﻡ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺫاﺕ ﻳﻮﻡ ﻳﺎ ﻋﺎﺋﺸﺔ، ﻫﻞ ﻋﻨﺪﻛﻢ ﺷﻲء؟ ﻗﺎﻟﺖ: ﻓﻘﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻣﺎ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﺷﻲء ﻗﺎﻝ: فإﻧﻲ ﺻﺎﺋﻢ [صحيح مسلم: 1154]

امام بخاری اپنی الصحیح میں” ﺑﺎﺏ ﺇﺫا ﻧﻮﻯ ﺑﺎﻟﻨﻬﺎﺭ ﺻﻮﻣﺎ” کے تحت معلقا نقل کرتے ہیں۔

ﻭﻗﺎﻟﺖ ﺃﻡ اﻟﺪﺭﺩاء: ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ اﻟﺪﺭﺩاء ﻳﻘﻮﻝ: ﻋﻨﺪﻛﻢ ﻃﻌﺎﻡ؟ ﻓﺈﻥ ﻗﻠﻨﺎ: ﻻ، ﻗﺎﻝ: فإﻧﻲ ﺻﺎﺋﻢ ﻳﻮﻣﻲ ﻫﺬا ﻭﻓﻌﻠﻪ ﺃﺑﻮ ﻃﻠﺤﺔ، ﻭﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭاﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻭﺣﺬﻳﻔﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻢ [صحيح البخارى: 3/ 29]

امام بیھقی نے حدیث عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو اس باب “ﺑﺎﺏ اﻟﻤﺘﻄﻮﻉ ﻳﺪﺧﻞ ﻓﻲ اﻟﺼﻮﻡ ﺑﻨﻴﺔ اﻟﻨﻬﺎﺭ ﻗﺒﻞ اﻟﺰﻭاﻝ” کے تحت نقل کیا ہے۔
[السنن الکبری للبیھقی: 7913]
حدیث عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے بعد امام طحاوی لکھتے ہیں:

“ﻭﻫﻮ اﻟﺘﻄﻮﻉ ﻳﻨﻮﻳﻪ اﻟﺮﺟﻞ, ﺑﻌﺪﻣﺎ ﻳﺼﺒﺢ ﻓﻲ ﺻﺪﺭ اﻟﻨﻬﺎﺭ اﻷﻭﻝ. ﻭﻗﺪ ﻋﻤﻞ ﺑﺬﻟﻚ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻩ”
[شرح معانی الآثار للطحاوى: 3180]
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻣﺮﺯﻭﻕ, ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻭﻫﺐ ﻭﺭﻭﺡ ﻗﺎﻻ: ﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻷﺣﻮﺹ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا ﺃﺻﺒﺢ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺛﻢ ﺃﺭاﺩ اﻟﺼﻮﻡ ﺑﻌﺪﻣﺎ ﺃﺻﺒﺢ ﻓﺈﻧﻪ ﺑﺄﺣﺪ اﻟﻨﻈﺮﻳﻦ [شرح معانی الآثار للطحاوى: 3181 صحیح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻣﺮﺯﻭﻕ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺭﻭﺡ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﺸﺮ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺟﻞ ﻷﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ: ﺇﻧﻲ ﺗﺴﺤﺮﺕ ﺛﻢ ﺑﺪا ﻟﻲ ﺃﻥ ﺃﻓﻄﺮ. ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ ﺷﺌﺖ ﻓﺄﻓﻄﺮ ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻃﻠﺤﺔ ﻳﺠﻲء ﻓﻴﻘﻮﻝ ﻫﻞ ﻋﻨﺪﻛﻢ ﻣﻦ ﻃﻌﺎﻡ؟ ﻓﺈﻥ ﻗﺎﻟﻮا ﻻ ﻗﺎﻝ ﺇﻧﻲ ﺻﺎﺋﻢ [شرح معانی الآثار للطحاوى: 3186 صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺷﻴﺒﺔ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺭﻭﺡ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻃﻠﺤﺔ ﻛﺎﻥ ﻳﺄﺗﻲ ﺃﻫﻠﻪ ﻣﻦ اﻟﻀﺤﻰ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻫﻞ ﻋﻨﺪﻛﻢ ﻏﺪاء؟ ﻓﺈﻥ ﻗﺎﻟﻮا: ﻻ ﺻﺎﻡ ﺫﻟﻚ اﻟﻴﻮﻡ
شرح معانی الآثار للطحاوى: 3189 سعید بن أبی عروبہ قتادہ سے روایت میں أثبت وأحفظ ہیں اور ماقبل اس کا شاہد ہے۔
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻃﺎﻫﺮ اﻟﻔﻘﻴﻪ، ﺃﻧﺒﺄ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﻘﻄﺎﻥ، ﺛﻨﺎ ﺳﻬﻞ ﺑﻦ ﻋﻤﺎﺭ، ﺛﻨﺎ ﺭﻭﺡ، ﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﻃﻠﺤﺔ ﻛﺎﻥ ﻳﺄﺗﻲ ﺃﻫﻠﻪ ﻣﻦ اﻟﻀﺤﻰ ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻫﻞ ﻋﻨﺪﻛﻢ ﻣﻦ ﻏﺪاء؟ ﻓﺈﻥ ﻗﺎﻟﻮا: ﻻ، ﺻﺎﻡ ﺫﻟﻚ اﻟﻴﻮﻡ، ﻭﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﺻﺎﺋﻢ [السنن الكبرى للبيهقى: 7917]

سھل بن عمار العتکی کی کسی ناقد امام نے توثیق نہیں کی ہے البتہ اس پر سخت جرح موجود ہے دیکھیے لسان المیزان: 3/ 121 اور اس کا ترجمہ سير أعلام النبلاء ،تاريخ الإسلام للذهبى میں موجود ہے۔

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ اﻟﻔﻀﻞ اﻟﻘﻄﺎﻥ، ﺃﻧﺒﺄ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﺛﻨﺎ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﻳﻌﻨﻲ اﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻗﻼﺑﺔ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﺘﻨﻲ ﺃﻡ اﻟﺪﺭﺩاء، ﺃﻥ ﺃﺑﺎ اﻟﺪﺭﺩاء ﻛﺎﻥ ﻳﺠﻲء ﺑﻌﺪﻣﺎ ﻳﺼﺒﺢ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﺃﻋﻨﺪﻛﻢ ﻏﺪاء؟ ﻓﺈﻥ ﻟﻢ ﻳﺠﺪﻩ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﻧﺎ ﺇﺫا ﺻﺎﺋﻢ [السنن الکبری للبیھقی: 7919، صحیح]
ﻗﺎﻝ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ: ﻓﺄﻣﺎ اﻟﺘﻄﻮﻉ، ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺃﻥ ﻳﻨﻮﻱ اﻟﺼﻮﻡ ﻗﺒﻞ اﻟﺰﻭاﻝ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺄﻛﻞ ﻭﻟﻢ ﻳﺸﺮﺏ، ﻭاﺣﺘﺞ ﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ اﻟﻤﺰﻧﻲ: ﺑﺄﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﺪﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﺯﻭاﺟﻪ، ﻓﻴﻘﻮﻝ: ﻫﻞ ﻋﻨﺪﻛﻢ ﻣﻦ ﻏﺪاء؟ ﻓﺈﻥ، ﻗﺎﻟﻮا: ﻻ ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﺻﺎﺋﻢ
[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 8546، 8547]

رہے زوال کے بعد کے آثار تو وہ مجھے سندا ثابت معلوم نہیں ہوتے ہیں۔

ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺩاﻭﺩ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ اﻟﻮﺣﺎﻇﻲ ( هو يحيى بن صالح ) ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺑﻼﻝ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺮﻭ ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﺒﺢ ﺣﺘﻰ ﻳﻈﻬﺮ ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻝ ﻭاﻟﻠﻪ ﻟﻘﺪ ﺃﺻﺒﺤﺖ ﻭﻣﺎ ﺃﺭﻳﺪ اﻟﺼﻮﻡ ﻭﻣﺎ ﺃﻛﻠﺖ ﻣﻦ ﻃﻌﺎﻡ ﻭﻻ ﺷﺮاﺏ ﻣﻨﺬ اﻟﻴﻮﻡ ﻭﻷﺻﻮﻣﻦ ﻳﻮﻣﻲ ﻫﺬا
[شرح معانی الآثار للطحاوى: 3188]

اس أثر کی سند میں عمرو بن أبی عمروالمدنی راوی کے ضبط پر کلام ہے اور اس کا مرتبہ علی الراجح صدوق ربما أخطا أو ربما وھم ہے حافظ ابن حجر کا ثقہ قرار دینا محل نظر ہے۔
امام بخاری نے کہا ولكن روى عن عكرمة مناكير ولم ينكر في شئ من ذلك أنه سمع عن عكرمة
[العلل الكبير للترمذي]
بہرحال اس اثر پر موافقت کسی نے نہیں کی ہے سو یہ غیر محفوظ ہے۔ یا حسن بھی مانیں تو زوال سے قبل ہی روزہ رکھنے کی نیت کی جانی اولی معلوم ہوتی ہے۔
ہم نے اس موضوع کے جمیع آثار وآراء کو جمع نہیں کیا بلکہ جو جامع اور راجح موقف کی تائید میں معلوم ہوئیں انہیں لکھ دیا گیا ہے۔ اور مزید تحقیق کا میدان اہل علم وفضل کے لیے کھلا ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ