سوال (5473)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے (وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ۔۔۔ ) الخ ’’ اور جب تیرے رب نے بنو آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی اور انہیں خود انہی پر گواہ ٹھہرایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم اقرار کرتے ہیں۔‘‘ کی تفسیر پوچھی گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر اپنا داہنا ہاتھ اس کی پشت پر پھیرا اور اس سے اس کی اولاد نکالی اور فرمایا: ان کو میں نے جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جنتیوں والے عمل کریں گے۔ پھر اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور اس سے اس کی اولاد نکالی اور فرمایا: ان کو میں نے دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ دوزخیوں والے عمل کریں گے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کیونکر ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بلاشبہ اللہ عزوجل نے جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے تو اس سے اہل جنت والے عمل کرواتا ہے حتیٰ کہ وہ اہل جنت کے عمل کرتا ہوا مر جائے گا تو اللہ انہی اعمال کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فرما دے گا اور جب کسی بندے کو آگ کے لیے پیدا کیا ہے تو اس سے دوزخیوں والے عمل کرواتا ہے حتیٰ کہ وہ دوزخیوں والے عمل کرتا ہوا مر جائے گا تو اللہ اسی کے سبب سے اسے آگ میں ڈال دے گا۔‘‘
[سنن ابی داؤد: 4703] شیخ محترم کیا یہ روایت درست ہے؟
جواب
روایت صحیح ہے، “مسح ظهر” پر اختلاف ہے، ترمذی کی روایت میں انقطاع ہے، دیگر روایات کو دیکھ لیا جائے تو مفہوم وہ ہی بنتا ہے جو اس روایت میں موجود ہے، اس کا تعلق ایمانیات سے ہے، ہم نے سن لیا ہے اور مان لیا ہے، یہ تقدیر کا معاملہ ہے، تقدیر اللہ تعالیٰ کا راز ہے، اس کو کریدنے اور پردہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، ہمیں جو بتایا گیا ہے، اس پر عمل کرنا چاہیے۔ مسئلہ تقدیر ایک نازک ترین مسئلہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تقدر پر بحث کرنے سے روکا ہے، عمل کا اہتمام کرنا چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّا هَدَيۡنٰهُ السَّبِيۡلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوۡرًا” [الانسان: 3]
بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ نا شکرا.
خیر کو اختیار کریں، شر سے دور رہیں، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان لائیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ