سوال (1634)

بنی اسرائیل کے دل میں بچھڑے کی محبت کیوں ڈال دی گئی ہے ؟

جواب

مصر کے ایک دیوتا کا نام ”حورس” تھا، اس کا چہرہ گائے کی شکل کا تھا، سامری نے بنی اسرائیل سے زیورات اور سونا لے کر جو بت بنایا تھا وہ اسی ”حورس” کی شکل کا تھا۔ ہندوؤں کی طرح مصری بھی گوسالہ پرست تھے، یہ اسرائیلی بھی ان کی غلامی کی وجہ سے ”الناس علی دین ملوکھم” ان کے نقش قدم پر چلے نکلے اور اس میں اس قدر راسخ ہو رہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بحر احمر کے شمالی سرے سے پار لے کر سینا پر پہنچے تو وہاں ایک قوم کو صنم خانوں میں بتوں کے پاس چلّے اور اعتکاف کرتے دیکھا تو تڑپ اٹھے اور کہنے لگے کہ اے موسیٰ! ہمیں بھی ان کی طرح کا کوئی دیوتا بنا دے۔

“وَجـوَزنا بِبَنى إِسر‌ءيلَ البَحرَ‌ فَأَتَوا عَلى قَومٍ يَعكُفونَ عَلى أَصنامٍ لَهُم قالوا يـموسَى اجعَل لَنا إِلـهًا كَما لَهُم ءالِهَةٌ قالَ إِنَّكُم قَومٌ تَجهَلون” [سورة الاعراف : 138]

چونکہ ان میں گوسالہ پرستی کے جراثیم ابھی کافی طاقتور تھے ، اس لیے مصریوں کی غلامی سے چھٹکارا پانے کے باوجود اب بھی ان کے دماغ صنم خانے ہی تھے۔ سامری جو ایک شاطر قسم کا سیاسی آدمی بھی تھا اور ذہن قسم کا ہنرمند بھی، اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری کو غنیمت سمجھا اور لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہوگیا کہ خدا جانے حضرت موسیٰ علیہ السلام کہاں غائب ہوگئے۔ اب وہ واپس آئیں گے بھی یا نہیں۔ آرام سے ہم بیٹھے تھے ، وہاں سے لاکر ہمیں یہیں چھوڑا، اب مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہمارا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے، ان کو مایوسی کی ان اتھاہ گہرائیوں میں ڈالنے کی بعد خود کو مرجع عقیدت بنانے کی کوشش کی ،اوہام پرست لوگوں کو رام کرنے کے لیے سب سے کامیابی حربہ ”عجوبہ” کی نمائش ہوتی ہے ، چنانچہ اس نے بنی اسرائیل سے سونا اور زیورات منگوا کر پگھلائے او رمیکانکی طریقے سے بچھڑے کی صورت کا ایک مجسمہ بنایا جس میں جب ہوا یا سورج کی کرنیں داخل ہوتیں تو گائے بچھڑے کی طرح اس سے آواز نکلتی۔ اس عہد میں یہ بات کچھ بڑی بات نہیں تھی۔ پندرھویں صدی قبل مسیح میں اینوتپ سوم کے عہد میں، اس کے میر عمارت نے ، تھیبس کے مغربی میدان میں فرعون کے دو مجسمے بنائے تھے ، جن کے پیٹ سے طلوع آفتاب کے وقت آواز نکلتی تھی۔ اسی فارمولا کے مطابق سامری نے بچھڑے کو بنایا تھا ۔بس پھر کیا تھا، اس دیکھتے ہی وہ سجدے میں گر گئے۔

“فَأَخرَ‌جَ لَهُم عِجلًا جَسَدًا لَهُ خُوارٌ‌ فَقالوا هـذا إِلـهُكُم وَإِلـهُ موسى فَنَسِىَ” [سورة طه : 88]

«پھر اس (سامری) نے ان (اسرائیلیوں)کے لیے اس کا ایک بچھڑا (بنا کر) نکال کھڑا کیا (وہ ایسا)بت (تھا) جس کی آواز (بھی) بچھڑے ہی کی تھی، اس پر وہ بول اُٹھے (آہا) یہی تو تمہاری معبود ہے اور موسیٰ کا (بھی) سو (افسوس) وہ بھول کر (کوہ طور پر چلا ) گیا»
حضرت ہارون علیہ السلام نے ان کو بہت سمجھایا کہ تم ایک سازش کا شکار ہوگئے ہو، خدا تو تمہارا وہی رحمان ہے۔

“يـقَومِ إِنَّما فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَ‌بَّكُمُ الرَّ‌حمـنُ” [سورة طه : 90]

بولے: حضرت موسیٰ آئیں گے تو دیکھی جائے گی، صرف آپ کے کہنے سے ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔
“قالوا لن نبرح عليه عكفين حتى يرجع إلينا موسى”
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی اس گمراہی کی اطلاع وہاں کوہ طور پر ہی مل گئی تھی کہ لیجئے! سامری انہیں لے ڈوبا ہے۔

‘فَإِنّا قَد فَتَنّا قَومَكَ مِن بَعدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السّامِرِ‌ىُّ” [سورة طه : 85]

حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں سے غصے غصے واپس تشریف لائے اور آکر قوم کو ڈانٹا اور کہا کہ : کیا میں نے مقررہ وقت سے زیادہ دیر لگا دی ہےکہ اپنی مرضی کرنے لگ گئے ہو یا ویسے ہی جوتے کھانے کو جی چاہنے لگا تھا۔

أَفَطالَ عَلَيكُمُ العَهدُ أَم أَرَ‌دتُم أَن يَحِلَّ عَلَيكُم غَضَبٌ مِن رَ‌بِّكُم [سورة طه: 86]

وہ بولے: دانستہ اور خوشی سے تو ہم نے ایسا نہیں کیا، قبطیوں کے سونے کے زیورات وغیرہ کا جو بوجھ ہمراہ لائے تھے، ناجائز تھے، انہیں اکٹھا کرکے آگ میں لا پھینکا اور ہماری طرح سامری نے بھی اس میں لاڈالا (اسرائیلیات اور مفسرین) دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنے زیوروں کے بوجھ سے تنگ آگئے تھے چنانچہ لاکر ان کو آگ میں لا ڈالا اور سامری نے بھی لا ڈالا۔ ایک معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ ہم مصریوں سے فیشن سیکھ کر آئے اور بن ٹھن کر رہنے لگے۔ مگر اب سمجھے کہ یہ خبط ہی ہے اس لیے جاکر پھینک آئے۔

“قالوا ما أَخلَفنا مَوعِدَكَ بِمَلكِنا وَلـكِنّا حُمِّلنا أَوزارً‌ا مِن زينَةِ القَومِ فَقَذَفنـها فَكَذلِكَ أَلقَى السّامِرِ‌ى” [سورۃ طه: 87]

“کہنا وہ یہ چاہتے تھے کہ پھر سامری نے اسے آوازیں نکانے والا بچھڑا بنا کر ہمارے سامنے رکھ دیا، چنانچہ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کہیں یہی وہ معبود نہ ہو جس کی تلاش میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نکلے ہیں؟”
اس کے بعد آپنے حضرت ہارون علیہ السلام کا محاسبہ کیا: انہوں نے جواب دیا کہ میری نہیں سنتے تھے۔ زیادہ مقابلہ نہ کیا کہ کہیں آپ یہ فرمائیں کہ تم نے قوم کو انتشار اور افتراق کی راہ پر ڈال دیا۔

“إِنّى خَشيتُ أَن تَقولَ فَرَّ‌قتَ بَينَ بَنى إِسر‌ءيلَ وَلَم تَر‌قُب قَولى” [سورة طه : 94]

آپ نے حضرت ہارون علیہ السلام سے سختی کے ساتھ جو باز پرس فرمائی تھی، اس کے لیے اللہ سے اب اپنے لیے اور اپنے بھائی کے لیے معافی کی درخواست کی۔

“رَ‌بِّ اغفِر‌ لى وَلِأَخى وَأَدخِلنا فى رَ‌حمَتِكَ وَأَنتَ أَر‌حَمُ الرّ‌حِمينَ” [سورة الاعراف : 151]

اب سامری کی باری آئی: کیوں جناب یہ کیا قصہ ہے؟
وہ بولا : جناب! آپ کی خاک پاکی یہ سب کرامت ہے یہ وہ بات تھی جو سب کے سمجھنےکی نہیں تھی، ایک مٹھی لے کر میں نے اس مجسمہ میں ڈال دی تو وہ آوازیں دینے لگ گیا۔ اب اگر وہ بچھڑا بول پڑا تو اس میں میرا کیا قصور ، اگر لوگ یہ محیّر العقول صورت دیکھ کر بے قابو ہوگئے تو اس میں ان کا کیا دوش ؟ عوام، عوام ہی ہوتے ہیں، اب اگر وہ سجدہ میں گر گئے تو خدا ہی کے نام پر گرے، انہیں معذور کیوں نہ تصور کیا جائے؟ اس کے معنی خیز الفاظ یہ ہیں:

بَصُر‌تُ بِما لَم يَبصُر‌وا بِهِ فَقَبَضتُ قَبضَةً مِن أَثَرِ‌ الرَّ‌سولِ فَنَبَذتُها وَكَذلِكَ سَوَّلَت لى نَفسى [ سورة طه ” 96]

حق تعالیٰ نے فرمایا کہ: یہ عجیب لوگ ہیں کہ اس کی صرف آواز پرمرمٹے ہیں او ریہ نہیں سوچتے کہ وہ نہ تو کوئی جواب دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع و نقصان۔

“فَلا يَرَ‌ونَ أَلّا يَر‌جِعُ إِلَيهِم قَولًا وَلا يَملِكُ لَهُم ضَرًّ‌ا وَلا نَفعًا” [سورة طه : 89]
أَلَم يَرَ‌وا أَنَّهُ لا يُكَلِّمُهُم وَلا يَهديهِم سَبيلًا [سورة الاعراف : 158]

اور فرمایا کہ جو اتنی بات بھی نہیں سمجھتے اور اندھے ہوکر ان کی پوجا میں لگ گئے ہیں، ان کی زندگی بہت ہی ذلت کی زندگی گزرے گی۔

“إِنَّ الَّذينَ اتَّخَذُوا العِجلَ سَيَنالُهُم غَضَبٌ مِن رَ‌بِّهِم وَذِلَّةٌ فِى الحَيوةِ الدُّنيا” [سورة الاعراف : 152]

ہاں جنہو|ں نے توبہ کرلی، ان کو معاف کردیا جائے گا۔

“وَالَّذينَ عَمِلُوا السَّيِّـٔاتِ ثُمَّ تابوا مِن بَعدِها وَءامَنوا إِنَّ رَ‌بَّكَ مِن بَعدِها لَغَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ [سورة لاعراف : 153]

جب ان کا کیا ان کے آگے آیا تو بہت پچھتائے او رلگے دعاویں مانگنے۔

وَلَمّا سَكَتَ عَن موسَى الغَضَبُ أَخَذَ الأَلواحَ وَفى نُسخَتِها هُدًى وَرَ‌حمَةٌ لِلَّذينَ هُم لِرَ‌بِّهِم يَر‌هَبونَ” [سورة الاعراف : 154]

بچھڑے کے سودائیوں کے علاوہ دو اور طبقے بھی تھے، ایک وہ جنہوں نے ان کوسمجھایا بجھایا، دوسرا وہ جو خاموش تماشائی بنا رہا۔ جو بچھڑے کے سودائی اور پجاری تھے، ان کے لیے تو قتل کی سزا تجویز ہوئی کیونکہ یہ مژہبی تقاضا کے علاوہ ان کی شریعت میں یہ ایک فوجداری جرم بھی تھا، جو رہے تماشائی یا تبلیغ کرنے والے؟ سو اُن کو حکم ہوا کہ توبہ کریں اور ان مجرموں کی گردنیں اڑائیں۔

“فَتوبوا إِلى بارِ‌ئِكُم فَاقتُلوا أَنفُسَكُم” سورة [البقرة ؛ 54]

بچھڑے کی پوجا ساری قوم نے نہیں کی تھی بلکہ عامی قسم کے زود اعتقاد لوگوں نے کی تھی۔

“أَتُهلِكُنا بِما فَعَلَ السُّفَهاءُ مِنّا”

سامری سے کہا: اب تم اپنے معبود کا حشر دیکھو اسے راکھ بنا کر سمندر میں بہائے دیتے ہیں۔

“وَانظُر‌ إِلى إِلـهِكَ الَّذى ظَلتَ عَلَيهِ عاكِفًا لَنُحَرِّ‌قَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِى اليَمِّ نَسفًا” . [سورة طه : 97]

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ