سوال

میں نے یو بی ایل کے الامین اسلامک کیش فنڈ میں کچھ پیسے انویسٹ کیے ہوئے ہیں جو کہ ان کی ایک انویسٹمنٹ اسکیم ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ انہوں نے اپنا ایک میوچول فنڈ بنایا ہوا ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ انویسٹمنٹ مارکیٹ کی جو اسلامک سیکیورٹیز ہیں جیسے کہ صکوک پونڈز وغیرہ ہیں،  وہ ان کے اندر انویسٹ کرتے ہیں اور اس کا جو پرافٹ ہے وہ پھر اپنے میوچول فنڈ ہولڈرز، انویسٹرز میں ڈسٹریبیوٹ کرتے ہیں۔ اس کا جو پرافٹ آتا ہے وہ ڈیلی بیس پہ آتا ہے، اگر ہم دیکھیں تو سالانہ پرسنٹیج کے مطابق یہ کوئی 18 ،19 پرسنٹ کے حساب سے چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا ہوا ہے کہ اس میں جو پرنسپل اماؤنٹ انویسٹڈ ہے وہ بھی رسک پہ ہے لیکن بہت ہی لو رسک ہے۔ ان کی اس کے علاوہ بھی دیگر انویسٹمنٹ سکیمز ہیں جن میں ہائی رسک بھی ہے لیکن میں نے جو لو رسک والی اسکیم کے اندر انویسٹ کیا ہوا ہے۔ میں اطمینان کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ کیا مجھے اس سے پیسے نکلوا لینے چاہیے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر کوئی ادارہ یا کمپنی انویسٹڈ رقم کے ساتھ جائز کاروبار کرتے ہوئے ہر ہفتے/مہینے کتنی پرافٹ ہوئی ہے یہ بھی بتا کر اس میں سے انویسٹرز کا حصہ مقرر کر کے انکو منافع دیتے ہیں، اس صورت میں  اسکا جواز ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر کاروبار کی نوعیت  واضح نہیں کرتے، نفع و نقصان کی تفصیل نہیں  بتاتے جیسا کہ بینکوں کا طریقہ کار ہے تو پھر یہ مجہول بیع ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے ۔

اصل میں بینک ان انویسٹ شدہ پیسوں سے سودی معاملات کرتا ہے، اسی لیے بینک کبھی بھی اپنے کسٹمر کو انویسٹڈ رقم کے متعلق تفصیل شیئر نہیں کرتا کہ اس سے انہوں نے کیا چیز خریدی اور کیا بیچی اور کیا کیا معاملات کیے وغیرہ۔ بس وہ کسٹمر کو مطمئن کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ اس میں سود نہیں ہے۔ حالانکہ ہماری پاکستان کی بینکاری تقریبا تمام کی تمام سود پہ مبنی ہے،  باوجودیکہ انہوں  نے اس میں  اسلامک ناموں اور اصطلاحات سے کچھ سکیمیں بھی چلائی ہوئی ہیں لیکن ان سب کا معاملہ اور تعلق بھی سود کے ساتھ ہی ہے۔

اور پھر کوئی بینک بھی ایسا نہیں ہے جس کا ورلڈ بینک کے ساتھ تعلق نہ ہو اور وہ اس کے تحت نہ چل رہا ہو اور ورلڈ بینک کا سارا نظام  سودی ہے۔

سود اللہ اور اسکے رسول کیساتھ جنگ اور ایک لعنت ہے۔

“لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»”. [صحیح مسلم: 4093]

’’رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں‘‘۔

اس لیے بینک کیساتھ اس طرح کی کسی بھی اسکیم میں پارٹنر بننا اور انویسٹ کرنا سودی معاملات میں شرکت اور تعاون کی وجہ سے درست اور جائز نہیں ہے۔

لہذا اس شخص کو بینک کی اس اسکیم میں انویسٹ کی گئی رقم واپس  لے لینی چاہیے اور بینک کیساتھ کسی بھی قسم کا لین دین نہیں کرنا چاہیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ