سوال (5670)

ہمیں یو بی ایل کی برانچ کا کام مل رہا ہے، تو یو بی ایل تو ہمیں پتا ہے کہ سود پر بزنس کرتا ہے، لیکن ہمارا تو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہمیں بحیثیت کانٹریکٹ کام مل رہا ہے وہ ہمیں پیمنٹ دیں گے اور ہم کام کریں گے۔
تو اگر دیکھا جائے تو ان تمام بینکس کی سورس آف انکم تو سود ہی ہے، یہ اس طریقے سے کسی بھی بینک کو اگر دیکھا جائے، تو ان کی یہی انٹرسٹ سود پر ہی وہ کما رہے ہوتے ہیں، تو اگر ہمارے پاس اس طریقے سے دوسری برانچز کا بھی کام رہا ہے پہلے بھی اور ابھی ہمیں یو بی ایل کا بڑا کام ان شاءاللہ ملنے جا رہا ہے، تو اس کے لئے پوچھنا تھا کہ ایسا تو نہیں ہے کہ یہ سب کچھ حرام میں جا رہا ہے؟

جواب

کام کی نوعیت واضح کریں کیا آپ بطور بینک ملازم کام کریں گے؟ یا کیا آپ ان کے ایجنٹ کے طور پر کام کر کے کمیشن لیں گے؟ یا بنک کے علاوہ آپ کی کوئی الگ فیلڈ ہے جس کا کام کرنا ہے جیسا کہ پلمبر یا الیکٹریشن وغیرہ جا کر کام کرتے اور اپنی مزدوری لیتے ہیں؟

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ

بینک کا تعمیری ٹھیکہ وغیرہ لینا کہ ہمیں پہلے سے یقینی طور پر پتہ ہے کہ یہ عمارت بینک کے لئے ہی ہے تو اسکا تعمیری کسی بھی نوعیت کا کام کرنا گناہ پر تعاون ہے اور یہ جائز نہیں۔
وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔۔۔
ایسی عمارت کا تعمیری ٹھیکہ تو جائز ہے کہ جہاں مختلف کام ہوسکتے ہوں، لیکن جس کا پہلے سے کنفرم ہو کہ عمارت شرعی مقاصد کے خلاف ہی استعمال ہوگی تو وہاں کام درست نہیں۔واللہ اعلم وعلمہ اتم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

سائل: پھر تو بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا بھی جائز نہیں ہوگا؟
جواب: جی ہاں، اصل مسئلہ اس طرح ہے کہ بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھولنا چاہیے، لیکن ضرورت کے تحت علماء نے کرنٹ اکاؤنٹ کی اجازت دی ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، خواہ مساجد و مدارس کا مسئلہ ہے، یا کاروبار کا مسئلہ ہو،

“الضرورات تبیح المحظورات”

کے تحت صرف علماء نے گنجائش دی ہے، گنجائش کو بندہ حلال نہ سمجھے، اس طرح کرنسی میں تصویر ہے، لیکن مجبوراً وہ ہمارے جیب میں ہوتی ہے، اس طرح پاسپورٹ پر تصویر بھی ہے، تصویر بنانا اور چیز ہے، فوٹو شاپ کھولنا الگ چیز ہے، اس طرح بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا اور چیز ہے، بینک کا ذمے دار بننا الگ چیز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: اگر فوٹو شاپ کی دکان کھولنا ناجائز ہے، اسی طرح بینک بنانا اس میں کام کرنا ناجائز ہے، تو جب مجبوری بنے گی تصویر بنانی پڑے گی، بینک کا اکاؤنٹ کھلوانا پڑے گا، تو کوئی تو ہوگا نا جو یہ کام کرتا ہوگا، پھر ہی تصویر بنائی جاسکے گی، اگر سب حرام سمجھ کر اس کو چھوڑ دیں تو مجبوری میں یہ کام کیسے پورے ہوں گے، اس کا مطلب ایسے کام کرنے والے ہونے چاہیے؟
جواب: بارك الله فيك و أحسن إليك،
جب کوئی کام (جو شریعت کے لحاظ سے حرام ہے) کو سب مسلمان ترک کر دیں گے، یعنی کوئی بھی اس میں شریک نہیں ہوگا، تو اگر حکومت اس کام کو ضروری سمجھے گی، تو پھر وہ خود ذمہ دار ہوگی کہ کسی چمار یا ایسے فرد کو مقرر کرے جو اس کا مکلف ہو، اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سہولت دے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی بھائی جان آپ کی بات درست ہو سکتی ہے لیکن پہلے ایک شرط ہے۔
دیکھیں شیخ محترم نے کچھ مجبوری کی صورتیں بتائی ہیں کہ اس میں بینک کا کرنٹ اکاؤنٹ کھولا جا سکتا ہے اور فوٹو شاپ کی بھی مجبوری بتائی ہے کہ شناختی کارڈ یا داخلہ فارم وغیرہ کے لیے مجبوری میں یہ کام کروانا پڑ سکتا ہے۔ پس اگر کوئی مسلمان صرف اتنے تک محدود رہ کر کوئی بینک کھولتا ہے یعنی جس میں صرف کرنٹ اکاؤنٹ ہی کھولا جائے تو وہ یہ کام کر سکتا ہے۔
اسی طرح فوٹو بھی صرف ان لوگوں کا وہ بنائے جس کی شریعت میں مجبوری میں اجازت ہے تو وہ جائز ہو سکتا ہے۔ مگر اس لحاظ سے کوئی بھی بینک نہیں بنائے گا نہ فوٹو شاپ کھولے گا کیونکہ شریعت کی ان باتوں کا لحاظ کر کے یہ دونوں کام کریں تو کمائی نہیں ہو سکتی ہے پس یہ ممکن ہی نہیں ہاں اگر کوئی فلاح انسانیت کے لیے کرنا چاہتا ہے تو ان قیود کا خیال رکھ کر کر لے۔
پس یاد رکھ لیں قرآن میں مجبوری میں خنزیر کو کھانے کی اجازت ہے تو اس کو دیکھ کر کوئی کہے کہ میں خنزیر کے گوشت کی شاپ کھول لوں کیونکہ کسی کو ضرورت پڑ سکتی ہے تو ایسا ممکن نہیں کیونکہ جس نے مجبوری میں وہ کھانا ہے اسکے پاس مال ہی نہیں ہو گا تبھی وہ کھا رہا ہے تو پھر آپ خالی فری میں کسی ایک آدھ آدمی کے لیے ایسی خنزیر کے گوشت کی دکان کیوں کھولیں گے۔
امید ہے آپ کے سوال میں اشکال کلیر ہو گیا ہو گا۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل: خنزیر والی مثال بالکل غیر مناسب ہے اس جگہ بینک سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے؟
تصویریں بھی ضرورت ہیں آج کے دور میں بہ ہر حال آپ کی پہلی بات مناسب ہے مثال کے علاوہ۔
جواب: جزاکم اللہ خیرا پیارے بھائی اصل میں خنزیر کی مثال اس لیے دی کیونکہ قرآن میں مجبوری کی یہ مثال تھی اور قرآن لغو نہیں کہ جو ممکنات سے ہٹ کر کوئی بات کرے جیسا کہ بعض الناس کی طرف سے غیر ممکنہ چیزوں پہ بھی حکم لگائے جاتے ہیں ہاں ممکنات کم ہونا دوسری بات ہے۔
بینک کے ساتھ خنزیر کا قیاس میں نے اسکی وقوع پزیر ہونے کے لحاظ سے نہیں کیا بلکہ اس لحاظ سے مشابہت بتائی کہ دونوں میں ہمیں فری میں کام کرنا پڑے گا کمائی کی نیت سے دونوں کام نہیں ہو سکتے ہیں۔
پھر بھی آپکو میری مثال درست نہیں لگی تو میں معزرت کرتا ہوں اور ایڈمن سے درخواست کرتا ہوں کہ اسکو حذف کر دیا جائے۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ