سوال (2386)
ایک شخص بنک میں ملازمت کرتا تھا، پھر ریٹائرمنٹ لی اس کی پینشن آتی تھی، پھر روک لی گئی، ملازموں نے کیس کیا تو کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں آ گیا، اب اس بندے کا سوال ہے کیا یہ پینشن لینا جائز ہے؟
جواب
ہمارے نزدیک بینک کی ملازمت جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایک سودی ادارہ ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء” [صحيح مسلم: 1598]
«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں»
اس شخص کو سوچنا چاہیے کہ جب ملازمت ہی جائز نہیں ہے، تو پھر پینشن کے جواز کا فتویٰ کیسے دیا جا سکتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:
جو بندہ بنک میں پیسے مگنواتا ہے یا کسی کو رقم بھیجتا ہے ، کیا اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہوگا ؟
جواب:
اس بینک کی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے علماء نے ایک محدود طریقے سے اجازت دی ہے، جیسے کرنٹ اکاؤنٹ، ڈیبٹ کارڈ، چیک، پیمنٹ کا آنا جانا وغیرہ۔ اس میں کچھ گنجائش ہے، جن کی علماء نے اجازت دی ہے، اور یہ اضطرار کی وجہ سے ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ