سوال (5776)
انڈیا میں سائبر کیفے جیسے عنوان سے دکانیں بنی ہوتی ہیں، جن میں لوگ آتے ہیں اور انہیں اپنے بینک اکاؤنٹ سے پیسے ٹرانسفر کر دیتے ہیں اور ان سے کیش میں رقم لے لیتے ہیں، اور کیفے والے اس پر طے شدہ فیس لیتے ہیں، مثلا اگر کوئی ہزار نکلوائے تو اور فیس ہے، دو ہزار نکلوائے تو اور فیس ہے، وغیرہ۔
جیسا کہ پاکستان میں جاز کیش، ایزی پیسہ وغیرہ کے ایجنٹس ہوتے ہیں، لوگ ان سے پیسے نکلواتے ہیں اور وہ پیسے وصول کرنے یا کسی کو بھیجنے پر رقم کے کم یا زیادہ ہونے کی بنیاد پر فیس لیتے ہیں. انڈیا میں یو پی آئی وغیرہ کے نام سے اس قسم کی بینکنگ چل رہی ہے۔ کیا اس طرح پیسے نکال کر دینے پر فیس لینا جائز ہے؟
جواب
اس کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ کسی ایجنٹ کو کمپنی کمیشن دیتی ہو، اور وہ کمپنی کی طرف سے پابند ہو کہ وہ کسٹمر سے کمیشن نہیں لے سکتا، تو ایسی صورت کے اندر لوگوں سے پیسے لینا یہ کمپنی کے ساتھ خیانت اور لوگوں کے ساتھ ظلم ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اسے کمپنی کی طرف سے کمیشن نہ دیا جاتا ہو، یا اگر دیا بھی جاتا ہے تو کمپنی کی طرف سے اجازت ہو کہ وہ لوگوں سے اپنی سروسز کی فیس لے سکتا ہے، تو پھر مناسب اور معقول فیس لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ پیسوں کے بڑھنے سے فیس بڑھائی جاتی ہے، اس میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ چیز کی قیمت اور ویلیو بڑھنے سے اس کی فراہمی اور دستیابی کی فیس بڑھانا یہ معقول بات ہے، اگرچہ بعض علماء اسے سودی معاملے کے مشابہ سمجھتے ہیں، لہذا اگر اس شبہے سے بچنے کے لیے ایک فکس فیس رکھ لی جائے تو بہتر ہے۔ لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سودی معاملہ نہیں ہے۔ واللہ اعلم.
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ