شارع نے لفظ بقر يا بهيمة الأنعام کی کوئی حقیقت شرعیہ مقرر نہیں فرمائی ہے جیسے صلاة یا زکاة وغیرہ کی متعین فرمائی ہے۔ جب کہ اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ شرعی نصوص میں وارد کسی بھی لفظ کی تین حقیقتیں ہو سکتی ہیں۔ حقیقت لغویہ، حقیقت شرعیہ اور حقیقت عرفیہ۔ اگر عرف یا شرع نے کسی لفظ کی حقیقت میں کوئی تبدیلی نہ کی ہو تو حقیقت لغویہ ہی مراد لی جاتی ہے۔ اب اگر شرع یا عرف نے ان دونوں الفاظ کو ان کی حقیقت لغویہ سے پھیرا ہے تو دلیل مطلوب ہے اور اگر نہیں پھیرا تو حقیقت لغویہ جاننے کے لیے ائمہ لغات کی طرف ہی رجوع کیا جاتا ہے خاص طور پر ہم عجمیوں کے لیے۔
بہرحال بقر کا معنی (گ ا ئ ے) سے گائے کرنا شرعی نہیں، ہندی ترجمہ ہے۔ اگر عربی ترجمہ حجت نہیں تو ہندی ترجمہ کیسے حجت ہو گیا؟
بقر کا ترجمہ گائے ہم نے ازراہ مجبوری کیا ہے۔ مجبوری یہ تھی کہ بقر کا معنی جتنا وسیع تھا، ہماری زبان میں اس وسیع معنی کو ادا کرنے کے لیے کوئی متبادل لفظ موجود نہیں تھا لہذا ہم نے ازراہ مجبوری بقر کی تمام انواع میں سے صرف ایک نوع کے ساتھ اس کا ترجمہ کر دیا جو عرب میں پائی جاتی تھی۔
اس کی مثال لفظ الغنم بھی ہے۔ الغنم اپنی حقیقت لغویہ کے اعتبار سے بکریوں اور بھیڑوں دونوں کو شامل ہے۔ لغت کی کتابیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم اس کا ترجمہ “بکریاں” کرتے ہیں۔۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہماری زبان میں غنم کے وسیع معنی کو ادا کرنے کے لیے کوئی لفظ ہی موجود نہیں ہے جس میں غنم کی یہ دونوں انواع آ جائیں۔ لہذا ہم اس کا ترجمہ اس کی ایک مشہور نوع سے کر دیتے ہیں۔
قرآن میں پالتو چوپایوں کی حلت کے لیے بھی بهيمة الأنعام کا لفظ استعمال ہوا ہے (أحلت لكم بهيمة الأنعام الا ما يتلى عليكم) اور قربانی کی مشروعیت کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ (ولكل أمة جعلنا منسكا ليذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام)
بقر اور ابل کی تمام انواع کے حلال ہونے کی دلیل کے طور پر فقہاء پہلی آیت ہی بطور دلیل ذکر کرتے ہیں۔ اگر پہلی آیت میں بهيمة الأنعام کی حقیقت لغویہ میں بھینس داخل ہے تو دوسری آیت سے کیسے نکل گئی؟
رسول اللہ ﷺ کا اسے قربان نہ کرنا ایک مانع کی وجہ سے تھا۔ کسی مانع کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کے بدعت یا غیر مشروع ہونے کا ثبوت نہیں ہوتا۔ اصول فقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ سنت ترکیہ کسے کہتے ہیں۔ بھینس کو قربان نہ کرنا سنت ترکیہ نہیں کہی جا سکتی کیوں کہ اس کا ترک ایک مانع کی وجہ سے کیا گیا تھا اور وہ مانع اس کی عدم دستیابی تھا۔ تدوین قرآن اور نماز تراویح مستقل باجماعت پڑھانا بھی آپ ﷺ نے موانع کی وجہ سے ترک کیے تھے۔ بعد میں جب وہ موانع زائل ہو گئے تو خلفاء راشدین نے یہ دونوں کام کیے۔

اکثر لوگ ائمہ لغت کے قول “الجاموس نوع من البقر” (بھینس بقر کی ایک نوع ہے) سے غلط فہمی میں مبتلا ہوئے ہیں کہ بھینس اور گائے میں بیسیوں فرق ہیں اور دونوں کی باہم نسل کشی بھی نہیں کروائی جا سکتی تو بھینس گائے کی نسل سے کیسے ہو گئی؟ یہ بالکل لایعنی اور لغو اعتراض ہے۔ اس کی بنیاد صرف اور صرف یہ ہے کہ معترضین نے ائمۂ لغت کے قول کو صحیح رخ پر سمجھا ہی نہیں ہے۔بحیثیت ائمۂ لغت کے مختلف جانوروں کی نسل کی تحقیق کرنا ان کا منصب ہی نہیں ہے۔ ان کے قول کو علمِ حیوانات کے بجائے علمِ لغت کے تناظر میں سمجھنا چاہیے تھا اور علمِ لغت کے تناظر میں اس قول کا معنی صرف یہ بنتا ہے کہ بقر اسم جنس ہے جس کے تحت کئی انواع آتی ہیں۔ بھینس انہی میں سے ایک ہے۔
جیسے الغنم اسم جنس ہے۔ ہم اردو میں اس کا معنی ٫٫بکریاں،، کرتے ہیں جب کہ عربی لغت کے مطابق اس میں بکریاں اور بھیڑیں دونوں شامل ہیں۔ اب اگر اس لفظ کے معنی کی وسعت بتانے کے لیے کہا جائے کہ “الضان نوع من الغنم” تو کیا اس جملے پر بھی یہی اعتراضات وارد کیے جائیں گے کہ “بکری اور بھیڑ میں تو بیسیوں فرق ہیں۔ دونوں کی نسل کشی بھی ممکن نہیں تو بھیڑ غنم کی نوع کیسے ہو گئی” وغیرہ وغیرہ؟؟

سنت ترکیہ کیا ہوتی ہے؟ کیا بھینس کی قربانی سنت ترکیہ ہے؟

جب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کسی کام کا تقاضا موجود ہو اور اسے سر انجام دینے میں کوئی مانع بھی نہ ہو تو اس کام کا ترک کرنا سنت ترکیہ کہلاتا ہے۔
لیکن اس کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں:
1: آپ ﷺ کے زمانے میں تقاضے کا پایا جانا 2: اس وقت کسی مانع کا نہ ہونا
مثلا نماز عیدین سے پہلے اذان دینا سنت ترکیہ ہے۔ اس کا تقاضا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھا اور وہ یہ تھا کہ لوگوں کو نماز عید کے لیے مطلع کیا جائے جب کہ اسے سرانجام دینے میں کوئی امر مانع بھی نہیں تھا لہذا اس کام کا نہ کرنا سنت ترکیہ ہے اور اسے کرنا بدعت ہو گا۔
لیکن اگر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کسی کام کا تقاضا ہی موجود نہیں تھا تو وہ سنت ترکیہ میں داخل نہیں ہے۔ جیسے جمع و تدوین قرآن کا مسئلہ ہے۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ کہیں قرآن کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ کے وجود گرامی کی وجہ سے یہ تقاضا موجود نہیں تھا کہ قرآن کا کچھ حصہ جمع وتدوین کے بغیر ضائع ہو سکتا ہے۔ یہ تقاضا بعد میں پیدا ہوا تو صحابہ کرام رض نے اسے بغیر کسی اختلاف کے سر انجام دیا۔ کیوں کہ یہ سنت ترکیہ نہیں تھی۔
اسی طرح اگر رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کا ترک کسی مانع کی وجہ سے کیا ہو تو وہ بھی سنت ترکیہ میں داخل نہیں ہے۔ مثلا آپ ﷺ نے نماز تراویح باجماعت اس لیے ترک کر دی تھی کہ نزول وحی کا زمانہ ہونے کی وجہ سے کہیں امت پر یہ نماز فرض نہ کر دی جائے۔ آپ ﷺ کے بعد انقطاع وحی سے جب یہ اندیشہ زائل ہو گیا تو حضرت عمر رض نے اسے دوبارہ باجماعت شروع کروا دیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہ بھی سنت ترکیہ میں داخل نہیں ہے
(من اصول الفقہ علی منهج اهل الحديث لزكريا بن غلام قادر الباكستاني)
بھینس، یاک اور گاور (bison) وغیرہ کی قربانی کا معاملہ بھی اسی آخری مثال سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جانور بهيمة الأنعام اور بقر میں شامل ہونے کی وجہ سے قربانی میں مشروع تھے لیکن ایک مانع کی وجہ سے آپ ﷺ کے زمانہ مبارک میں ان کی قربانی نہیں کی گئی اور وہ مانع ان کی عدم دستیابی تھا۔ اس لیے ان جانوروں کی قربانی کا ترک کرنا سنت ترکیہ میں داخل نہیں ہے۔

محمد سرور