سوال (3254)
شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے رخصتی کے موقع پر کھانا کھلانے کا شرع میں کیا تصور ہے، جسے بارات کا کھانا بھی کہتے ہیں؟
جواب
قرآن و حدیث میں نکاح کی اہمیت وفضیلت اس کے متعلق راہنمائی موجود ہے، جو چیزیں حرام اور ممنوع تھیں وہ بھی واضح ہیں، نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے رضامندی کے ساتھ جتنے افراد کا لڑکے کے ساتھ آنا طے پا جائے اتنے افراد کا جانا ہی مناسب ہے اور ان کی مہمان نوازی کرنا بہتر و افضل ہے۔ اور اگر لڑکے والے بارات کی تعداد خود سینکڑوں کی تعداد میں لانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جبکہ لڑکی والے اس پر راضی نہیں نہ ہی وہ اتنے لوگوں کو کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتے ہیں تو لڑکے والوں کو اس ظلم والے ارادے سے باز آ جانا چاہیے اور اگر لڑکی والے کسی مجبوری کے سبب مان جاتے ہیں اور اتنے لوگوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں تو یہ تب بھی ظلم وزیادتی شمار ہو گا کیونکہ اس میں ان اپنی رضامندی شامل و ظاہر نہیں تھی، یہ دوسری صورت آج ہمارے معاشرے میں عام ہے جس کی مذمت کی جانی چاہیے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
در اصل دولہا اور اس کے اقرباء اپنے رشتے داروں اور دوستوں کواپنی خوشی میں شریک کرتے ہوئے ان کو بارات میں ساتھ لے جاتے ہیں ، لیکن اس کے لیے دوسرے کے گھر سے اس کی رضا کے بغیر اور زبردستی کھلانے کی بجائے اپنے گھر بلا کر دعوت کرنی چاہیے یا پھر جتنے زائد افراد کو لے جائیں ، ان کا خرچ خود برداشت کریں، میانوالی میں بعض خاندانوں میں رواج ہے کہ لڑکی والے کہتے ہیں کہ آپ جتنے افراد چاہیں لے آئیں البتہ ایک ہزار روپیہ فی کرسی کے حساب سے جمع کرادیں۔ وہاں کھانا لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
جی شیخ ہمارے ہاں میانوالی میں زیادہ تر یہی رواج تھا کہ لڑکی والوں کے گھر کھانے کا خرچہ لڑکے والے ہی دیتے ہیں اب کم ہوتا جا رہا ہے البتہ یہ وہ اسلام کی وجہ سے نہیں کرتے جیسے ہمارے ہاں پردہ سخت ہوتا ہے لیکن وہ اسلام کی وجہ سے نہیں ہوتا کیونکہ دیور وغیرہ سے کوئی پردہ نہیں ہوتا تو یہ ان کا ایک رواج ہے، پھر بھی یہ رواج فائدہ مند ہی ہے،
جیسے عربوں میں بہادری مہمان نوازی وغیرہ کا رواج تھا تو بعد میں اسلام میں آنے سے انکو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ