سوال (2877)
ہم بریلوی معاشرے میں رہتے ہیں اور وہ لوگ مشرک ہیں اور قرآن میں مشرک کے لیے دعا کرنے سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے تو جب ہم ان سے سلام لیتے ہیں، تب بھی ہم ان کے لیے سلامتی کی اور رحمت و برکت کی دعا کر رہے ہوتے ہیں تو کیا ایسے لوگوں سے جو کہ مشرک ہیں ان سے سلام لینا جائز ہے؟ ہمارا اکثر تعلق لین دین اٹھنا بیٹھنا ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے تو پھر ہمارے لیے کیا حکم ہے؟
جواب
اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ کلمے کا اقرار نہیں کرتے تھے، اور رسالت کے بھی منکر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، مطلقا تو ہم نہیں ملا سکتے ہیں، مطلقا ہم فرق ختم کردیں، اس کا ہمارے علماء نے انکار کیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
محترم بھائی شیخ نے بہترین جواب دیا لیکن آپ کو شاید کچھ اشکالات ہیں تو میں کچھ مزید تفصیل بیان کر دیتا ہوں، دیکھیں کچھ ہمارے علماء موجودہ مشرکین کو اس دور کے مشرکین مکہ کی طرح ہی سمجھتے ہیں اور کچھ علماء موجودہ مشرکین کو اس دور کے مشرکین مکہ کی طرح نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے اس طرح منکر نہیں ہیں جس طرح وہ مشرکین مکہ اللہ کے منکر تھے پس اس بات کو شیخ نے بیان کیا ہے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ مشرکین اس دور کے مشرکین مکہ کی طرح ہی ہیں تو آپ اپنا موقف وہ رکھ سکتے ہیں پھر آپ انکو سلام نہ کریں۔
اصل میں سعودیہ والے جمہور علماء پہلے موقف کو مانتے ہیں اور انکو سلام میں پہل سے منع کرتے ہیں بلکہ اللجنہ الدائمہ کا فتاوی اسلامیہ دارالسلام میں تو یہاں تک فتوی ہے کہ انکا ذبیحہ بھی حرام ہے جو یا علی وغیرہ پکارتے ہیں، البتہ پاکستان میں اندر جمہور اہل الحدیث علما دوسرا والا موقف رکھتے ہیں کہ موجودہ مشرکین اس دور کے مشرکین کی طرح نہیں ہیں، پس یہ جو آپ کا کمنٹ ہے تو شیخ محترم نے یہ اس دوسرے موقف رکھنے والوں کے بارے لکھا ہے کہ انکے نزدیک موجودہ مشرکین اللہ کے منکر نہیں۔
ویسے میرا موقف وہ ہے جس کو شیخ محترم نے درمیانہ موقف کہا ہے کہ بعض دفعہ دعوت کے لئے آپ ان مشرکین کو سلام میں پہل کر سکتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا کسی کافر کے لئے مطلق سلام کی دعا کرنا منع نہیں کیونکہ جب یہ حکم دیا کہ انکو وعلیکم کہو تو اگر انہوں نے السلام علیکم کہا ہو تو پھر تو انکو وعلیکم السلام خود بخود جواب ہو گیا کیونکہ یہی محذوف کے اصول کے تحت جواب بنے گا۔ اب جب جواب میں ان پہ سلامتی بھیجی جا سکتی ہے اور منع صرف سلام بھیجنے میں پہل نہ کرنا ہے تو پھر بعض صورتوں میں کسی ضرورت کے تحت سلام میں شاید پہل کی جا سکتی ہو لیکن یہ ضرورت کے اوپر منحصر ہو گا اسی کو شیخ محترم نے درمیانی صورت بتایا ہے۔ واللہ اعلم
اور میرے خیال میں اسی وجہ سے ڈاکٹر ذاکر نائیک دعوت کے لئے ہر مشرک کو السلام علیکم کہ دیتا ہے چاہے وہ عیسائی ہو یا ہندو ہو۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ