بارش نے موسم اور مزاج بھگو دیا

بارش نے موسم اور مزاج بھگو دیا ہے،ویسے عجب تاثیر ہے، بارش کے ان برستے اور بہے چلے آتے قطروں میں بھی۔یکسر یہ منظر اور مزاج بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ ہر شخص بارش سے بقدر حیثیت و استطاعت فائدہ اٹھاتا ہے، کیسا فائدہ؟ یہ اس کی اہلیت و صلاحیت پر منحصر ہے، مثلا شاعروں اور ادیبوں نے بھی اس برستی بارش سے کیا کیا اپنی فکر و تخلیق کی کھیتی سیراب کی ہے۔ بارش اور پانی کے متعلق قرآن نے بھی خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے، پانی کو وجہ وجود زندگی قرار دیا گیا اور پانی برستے یا زمین سے بہہ نکلنے کو پروردگار نے اپنی قدرت کاملہ کا کرشمہ قرار دیا۔پانی اگر گہرائیوں میں اترتا چلا جائے تو کون اسے نکال لانے کی سکت و صلاحیت رکھتا ہے؟ بارش زمیں زادوں پر اترنا چھوڑ دے تو کون قحط سالیوں کی تاب لا سکتا ہے؟
بارش کے متعلق جدید انسان نے اس گہرائی سے سوچنا بند کر دیا تھا،جس گہرائی میں صحرائی یا ازمنہ قدیم کا کسان سوچا کرتا تھا،کہ اس کی زراعت کا مدار ہی بارش پر تھا،جدید کسان نے نہری نظام اور آبپاشی کے دیگر ذرائع پر انحصار کیا تو بارش کی طرف اس کی ترستی نگاہیں اٹھنا بند یا کم ہو گئیں۔لیکن یہ محض ایک بھول تھی،زمین زاد آسمان سے کبھی بے نیاز اور بے تعلق نہیں رہ سکتا ہے۔ بے وقت کی بارشوں نے ایک طرف اس کی لہلہاتی فصل امید پر پانی پھیرنا شروع کیا تو نسل انسانی کو پھر آسمان کی طرف نظر التجا سے دیکھنا ہی پڑا۔ دوسرے نہری نظام یا دیگر ذرائع آبپاشی کا انحصار بھی کسی طور اسی بارش سے جا ملتا ہے۔
بارش کو جدید انسان کو ایک اور تناظر میں بھی دیکھنا پڑا۔ ماڈرن تہذیب کے تحفوں نے جب اس کی فضا زہر سے بھر دی تو مارے خوف کے اس کی گھگھی بند گئی۔ تب تخمینے آنے لگے کہ بے بارش کی اس مسموم فضا میں سانس لینے سے اس کے کتنے سانس کم ہوئے جاتے ہیں۔ مہنگی مصنوعی بارش نے گو اس کی معیشت کو پانی کر دیا مگر یہ بے طاقت برستا پانی بھی فضا کا زہر نہ چوس سکا،تب انسان پر کھلا کہ جب تک ایک ہموار تیزی سے بارش نہ برسے ائیر کوالٹی میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ تب پتہ چلا کہ آسمان سے بڑے ترنم سے برستی بارش محض ایک جمالیاتی اور زرعی ضرورت ہی نہیں،یہ سانس کیلئے گویا آکسیجن بھی ہے۔میں تو یہ بھی دیکھتا ہوں کہ بارش کے بغیر ہمارے درخت کتنے آلودہ و دریدہ ،پرائے پرائے اور خراب و خستہ لگتے ہیں۔ یعنی اس ایک بارش نے بھی انسان کو کس قدر خدا کی قدرت سے باندھ رکھا ہے۔
رسول رحمت بارش میں بھیگنا پسند فرماتے۔ارشاد ہوا،یہ اپنے رب کی طرف سے ابھی ابھی آئی ہے۔منفرد مفسر عبدالسلام بن محمد نے لکھا کہ محبت میں محبوب کی طرف سے آئی ہر چیز پیاری اور دلربا لگتی ہے۔بارش میں آپ دعا بھی کیا کرتے ،مولا بارش وہ برسے جو ہمیں فائدہ دے۔دراصل ایسا بھی ہوا کہ قوم عاد پر تباہی سے پہلے جب بادل امنڈ کے آئے تو خوشی سے وہ پکار اٹھے،وہ دیکھو برسنے والے بادل آئے، ان سے مگر عذاب کا کوڑا برسا،حدیث میں ہے،آندھی چڑھتی تو آپ بے چین ہو اٹھتے اور دعا فرماتے،مولا، اپنے غضب اور عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کردینا۔ارشاد یہ بھی ہے کہ بارش برستے وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے، تو آئیے اس برستی بارش میں دعا کریں،اللہ تعالٰی ہمیں دین و دنیا کی بھلائی بخشے اور بارش جیسی نعمت کی خیر و برکت سے کبھی محروم نہ فرمائے۔

#یوسف_سراج

یہ بھی پڑھیں: افسوس کہ لوگوں نے فائدہ کم اٹھایا