سوال (2099)

کیا کسی بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے خاوند کو بتائے بغیر کوئی کام کرے مثلاً کسی انویسٹ کرنا یا کوئی بھی خفیہ کاروبار شروع کرنا جس کا خاوند کو بالکل بھی معلوم نہیں ہو، نیز شریعت کس طرح کی آزادی ایک عورت یا بیوی کو فراہم کرتی ہے ؟

جواب

رب العالمین نے ہر ایک کے حقوق بیان فرما کر عدل عظیم کو قائم فرمایا ہے، انہیں میں سے عورت کے حقوق ہیں، بحیثیت بیٹی، بیوی، والدہ، بہن وغیرہ ہر صورت میں عورت کے حقوق ہیں۔ اور حقوق کے ساتھ کچھ حدود قیود بھی بیان فرمائی ہیں۔ تفصیل سورۃ الاحزاب میں دیکھ لیں۔ یاد رہے کہ عورت بنیادی طور پر ضروریات زندگی کے پورا کرنے کی مکلف وذمہ دار نہیں ہے یہ ذمہ داری شادی سے پہلے والدین پر ہے اور شادی کے بعد اس کے شوہر پر ہے، ہاں بیوہ ہے تو اس کی عدت کے بعد مناسب نیک رشتہ دیکھ کر شادی کر دیں اگر وہ نہیں کرنا چاہتی تو پھر اس کے اقرباء اس کی ضروریات زندگی کا خیال رکھیں، اگر ایسا نہیں تو حکومت وقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ مفقود ہے تو اس صورت میں اہل ثروت،مال دار لوگ اس بیوہ کے ساتھ رب العالمین کی رضا کے لیے مالی مدد کریں یا اسے ایسا روزگار دیں جو گھر پر رہ کر وہ کر سکے، ایسا بھی ممکن نہیں ہے تو تب ایسی لاوارث عورت اپنے اور اپنے بچوں کے لیے وہ شرعی حدود و قیود مثلاً پردے کے ساتھ اور بناؤ سنگار نہ کرتے ہوئے، رعب و دبدںہ اور اپنی عزت کے تحفظ کا خیال رکھتے ہوئے کوئی مناسب کام کر سکتی ہے یہ بامر مجبوری ہے۔
لیکن شوہر ساری ضروریات زندگی پوری کر رہا ہے اور بیوی صاحبہ نہ ڈاکٹر، نہ معلمہ، اور نہ استاذہ وغیرہ ہے تو اسے قطعا کوئی حق نہیں ہے، کاروبار کرنے کا ایسی آزادی عورت کو دین اسلام نے ہرگز نہیں دی ہے۔
تاریخ اسلامی میں خواتین نے تجارت نہیں کی ہے، مخلوط کاروبار نہیں کیے ہیں ، حتی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، صحابیات تابعیات سے بڑھ کر غیرت و حیاء والا کوئی نہیں ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے سب سے زیادہ حیا اور عزت و غیرت ایمان وتقوی والی ہونے کے باوجود کوئی تجارت اور کاروبار نہیں کیا ہے۔
آپ دیکھیں باجماعت نماز جیسی پاکیزہ عبادت میں خواتین کے احکام و تعلیمات کیا ہیں، صف بندی کے احکام کیا ہیں، اذان عورت نہیں کہہ سکتی مردوں کی امام نہیں بن سکتی ، امام بھول جائے تو پچھلی صف میں کھڑی عورت بول کر امام کو لقمہ نہیں دے سکتی ہے، غیر محرم تک سے گفتگو کے آداب بتائے تو یہ سب دلائل و تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ عورت جو کر رہی ہیں ان کا عمل شرعا درست نہیں ہے اور اوپر سے شوہر کو بتائے بغیر تو یہاں عورت غلطی پر ہے اور اگر شوہر ضروریات زندگی پوری کر رہا ہواور اپنی بیوی کے اس رویہ و عمل پر وہ راضی نہیں تو بلاشبہ عورت گنہگار ہے، اسے اپنے شوہر کے مقام وحق کو اہمیت دینی چاہیے اور ایسی عورت کو رب العالمین کی عدالت میں حاضر ہونے کو، میدان حشر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ