بزرگوں سے ملاقات۔۔۔کچھ باتیں،کچھ یادیں (1)

آج مورخہ2024-05-30 کو مناظر اسلام مولانا قاضی عبدالرشید ارشد حفظہ اللہ کی زیارت کے لیے حاضری ہوئی۔ مل کر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ:
“میں تو اب بوجہ علالت سفر کرنے اور کہیں آنے جانے سے قاصر ہوں اللہ آپ کا بھلا کرے ملاقات اور خبر گیری کے لیے آئے ہیں”
دوران گفتگو مولانا مفتی مبشر احمد ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ ہوا آبدیدہ ہوگئے اور مفتی صاحب کی وفات کو مسلک کا بڑا علمی نقصان قرار دیا۔ فرمانے لگے کہ “ربانی صاحب کو اللہ تعالی نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا. ایسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتییں۔ طبیعت میں سنجیدگی، علم کی پختگی مطالعہ کے وسعت اور دلائل کا استحضار ان کا خاصہ تھا۔ بہت سے مناظروں میں میرے ساتھ معاون رہے۔ مخالف کے منہ سے الفاظ ابھی نکل رہے ہوتے کہ اس کے جواب کے لیے حوالہ جات کی ایک لمبی فہرست ان کے ذہن میں فورا حاضر ہو جاتی”
♦️اہل حدیث علماء کے مابین تنظیمی اختلافات پر رنجیدہ ہوئے اور فرمایا کہ:
“میں، مولانا محمد یحیٰی گوندلوی اور مفتی مبشر احمد ربانی رحمھما اللہ اکثر مناظروں میں اکٹھے ہوتے تھے۔ مناظروں کے علاوہ ہماری سینکڑوں مجالس ہوئیں، مگر تنظیمی معاملات پر آپس میں کبھی بحث نہیں ہوئی۔ حالانکہ مفتی مبشر احمد ربانی رحمۃ اللہ علیہ جماعت ا د ع وہ کے ساتھ اور ہم دونوں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نظم سے وابستہ تھے”.
اس ضمن میں ایک واقعہ سنایا کہ سن 2000ء کے قریب ہم تینوں مولانا پروفیسر عبیدالسلام رحمۃ اللہ علیہ بن
مفتی جماعت مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر ماسٹر امین اوکاڑوی کے ساتھ مناظرہ کے لیے سرگودھا گئے۔ مناظرہ تو نہ ہوا وہاں ہم نے تقریریں کیں۔ اس موقع پر مفتی مبشر احمد ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:
“تنظیمیں تو اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ دین کی دعوت کا کام ایک نظم اور ترتیب سے بطریق احسن کیا جا سکے ورنہ مسلک کے دفاع کے لیے ہم سب ایک ہیں تمام علماء کا احترام ہمارے لیے لازم ہے”
مولانا قاضی صاحب حفظہ اللٌٰہ خود بھی شوگر اور ہارٹ پیشنٹ ہیں ان کے اہلیہ محترمہ بھی گردہ کے مرض کی وجہ سے ڈائلسز پر ہیں مگر مسلک کے دفاع کے لیے وہی ذوق اور تڑپ رکھتے ہیں۔ مناظرے کا ذکر چھڑ جائے تو لگتا ہے کہ طبیعت کی علالت اور نقاہت کے باوجود باطل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ابھی تیار ہیں۔
♦️احباب سے انکی صحت یابی کیلئے دعا کی درخواست ہے۔
اللہ تعالی شیخ محترم کو صحت و عافیت والی لمبی عمر عطا فرمائے آمین۔
مختصر سی اس مجلس میں کئی واقعات سننے کو ملے ان شاءاللہ قارئین کے ذوق کی نذر ہوتے رہیں گے۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (2)

حضرت قاضی صاحب نے چونکہ ایک عرصہ تک احناف کے سرکردہ مناظرین کے ساتھ امتیازی مسائل پر مناظرے کرکے مسلک اہل حدیث کی حقانیت کو واضح کیا۔
دورانِ مناظرہ سنجیدگی، متانت اور تحمل کے ساتھ موضوع کی پابندی اور ادھر ادھر کی باتوں سے بچتے ہوئے اپنی گفتگو کو قرآن وحدیث کے دلائل سے مزین کرنا ان کا امتیاز تھا۔
راقم الحروف نے جون 2022ء کی ایک ملاقات میں مناظر اسلام مولانا قاضی عبدالرشید حفظہ اللہ سے سوال کیا کہ: “آپ کے مفصل حالات زندگی اور مناظروں کا ریکارڈ کتابی شکل میں مرتب ہونا چاہیے”
تو آپ نے جواب میں یہ عظیم خوشخبری سنائی کہ مناظروں کی آڈیو ریکارڈنگ ایک اہل علم شخصیت کی زیر نگرانی قلم و قرطاس کی زینت بنانے کا کام کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے جو عنقریب طبع ہو کر شائقین کے ہاتھوں میں ہوگا”
♦️کل دو سال گزرنے کے بعد میں نے اس کام میں پیش رفت کے بارے پوچھا تو شیخ نے ایک لمبا سانس لیا پھر فرمایا: “کام ہو تو رہا ہے مگر نہ جانے مرتبین کے کچھ اپنے مسائل ہوں گے کام کی رفتار بہت سست ہے اور ادھرمیری صحت دن بدن گر رہی ہے، نظر کمزور ہو رہی ہے، اب پڑھنا مشکل ہو رہا ہے جبکہ میری خواہش ہے کہ میں اس کتاب کی نظر ثانی کر سکوں تاکہ اس میں کچھ اصلاح کی ضرورت ہو تو کر دوں مگر۔۔۔۔۔ شاید کہ میرے جانے کے بعد ہی یہ کام مکمل ہو”۔
فرمایا کہ “مفتی مبشر احمد ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے کئی بار توجہ دلائی کہ یہ کتاب جلد مرتب کر کے مجھے دیں۔ چونکہ بہت سے مناظرے ان کی معیت میں ہوئے ہیں اس لیے وہ اسے بالاستیعاب پڑھ کر حاشیہ کی صورت میں توضیحات اور تقریظ کی شکل میں ایک مبسوط مقالہ لکھنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔ مگر اللہ کو منظور نہ ہوا.
قدر اللّٰہ ما شاء فعل”۔
♦️میری اس تحریر کے ذریعے یہ پیغام اگر ان شیوخ تک جو اس کام کو سرانجام دے رہے ہیں پہنچ کر اس کام میں کچھ تیزی آ جائے تو میں بھی اپنے آپ کو اس کار خیر میں ثواب کا مستحق سمجھوں گا۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (3)

جلہن ضلع گوجرانوالہ کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے دو شخصیات نے پورے پاکستان میں پہچان دی۔ ایک مناظرِ اسلام مولانا قاضی عبدالرشید ارشد حفظہ اللہ جنہوں نے راولپنڈی، اسلام اباد اور پشاور سے لیکر سندھ کی وادیوں تک مناظروں کے ذریعے مسلک اہل حدیث کی صداقت کا لوہا منوایا۔۔۔۔اور دوسری شخصیت مولانا حکیم عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ فن جراحت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
🟢 جب شیخ القران مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کے ایکسیڈنٹ کے بعد تمام ڈاکٹر ٹانگ کاٹنے کا کہہ رہے تھے، وہاں حکیم صاحب کی مرم پٹی نے معجزانہ اثرات دکھائے اور مختصر سے وقت میں حضرت شیخ القران کو اللہ تعالی نے شفایاب کیا اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں دوبارہ سے بحال ہو گئیں۔ آج ان کی آل اولاد۔۔۔ حکیم محمد نعیم و دیگر اسی جذبہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
♦️حضرت قاضی صاحب فرما رہے تھے کہ:
“اس خاندان کی مسلک کے لیے خدمات بے شمار ہیں. مجھے حنفیت سے سلفیت کی طرف لانے میں مولانا عبدالحکیم اور ان کے بھائی مولانا عبدالعلیم سعیدی کا بڑا ہاتھ تھا۔ ہمیشہ سایہ کی طرح میرے ساتھ رہے۔ میرے دست و بازو بنے۔ ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا آج ان دو ہستیوں کے جانے کے بعد میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہوں”
مولانا عبدالعلیم سعیدی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا کہ: “وہ نہایت سنجیدہ اور دور اندیش انسان تھے خوش اخلاق، ملنسار اور خوددار تھے۔ انتہائی متحمل اور بردبار طبیعت کے حامل تھے مگر مسلکی معاملات میں انتہائی غیور تھے کسی بڑے سے بڑے مخالف کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ آواز اور انداز بدل جاتا۔ دینی معاملات کیلئے کسی بڑے چوہدری کو خاطر میں نہ لاتے۔ محنتی اور با عمل شخصیت تھے”
مزید فرمایا کہ مجھ سے پہلے گاؤں کی جامع مسجد میں خطیب تھے لکڑی کا بنایا ہوا خاصہ وزنی منبر جو دو آدمیوں سے اٹھنا مشکل ہے اکیلے سر پر رکھ کر سلیم پورہ اڈہ سے گاؤں تک دو/اڈھائی کلومیٹر کچی سڑک اور کیچڑ میں سے بڑے آرام سے لا کر مسجد میں رکھا ان کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی فکر نہ تھی نہ علمی لحاظ سے اور نہ ہی افرادی قوت کے لحاظ سے”

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (4)

اس وقت جلہن میں برلب سڑک جامعہ مریم صدیقہ للبنات کی شاندار اور وسیع عمارت میں موجود مسجد سمیت پانچ مساجد ہیں۔ چار میں خطبہ جمعہ ہوتا ہے۔
پہلی مسجد کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا کہ:
“قیام پاکستان سے قبل یہاں مولانا اللہ بخش رحمۃ اللہ علیہ اہل حدیث عالم رہائش پذیر تھے۔ ان کی چند کتب میرے پاس تھیں جن میں سے کچھ فضیلۃ الشیخ حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ کو بھی دیں۔ یہ بزرگ پاکستان بننے کے بعد تک زندہ رہے۔
ان کے تین بیٹے تھے: عنایت اللہ، ہدایت اللہ اور میاں رحمت اللہ۔۔۔۔ اول الذکر دونوں اہل حدیث تھے۔
تیسرے بیٹے میاں رحمت اللہ کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک بیوی اہل حدیث تھی، اور اس کی اولاد میاں عبدالحمید، ثناء اللہ اور محمد سعید سب اہل حدیث تھے۔ اسی طرح مولانا کے بڑے بیٹے میاں عنایت اللہ کے دو بیٹے میاں عبدالغنی اور میاں عبدالمجید اور پوتے سب اہل حدیث تھے۔
🟢 پاکستان بننے کے بعد حکیم نیاز احمد (والد مولانا حکیم عبدالحکیم و مولانا عبدالعلیم سعیدی) ہندوستان (ڈیرہ بسی ضلع انبالہ) سے ہجرت کر کے جلہن میں آباد ہوئے تو مسلک کے کام میں تیزی آئی۔ حکیم نیاز صاحب کی مسلکی غیرت حمیت کی وجہ سے انہیں “ننگی تلوار” کہا جاتا تھا. ان کے علاوہ گوندلانوالہ سے مستری محمد شریف رح نے یہاں اپنی مزدوری کے لیے ڈیرے ڈالے آٹا چکی اور آرہ مشین وغیرہ لگائی۔ وہ بھی مسلک اہلحدیث کے بے باک مبلغ تھے۔ یوں ساتھی ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
مسجد بنانے کے لیے جگہ کا انتخاب ہوا تو مولانا اللہ بخش رح کے پوتے میاں عبدالمجید اور شیخ محمد صدیق کے بھائی حاجی محمد حسین رحمھم اللہ راتوں رات جگہ کے مالک کے پاس نوشہرہ ورکاں پہنچے اور جگہ خرید کر واپس آئے۔مسجد کی تعمیر میں دیوار سیدھی کرنے کے لیے مولانا اللہ بخش کے گھر سے کچھ جگہ درکار تھی۔ مولانا نے فورا ہاں کر دی ان کے ایک بیٹے نے کچھ پس و پیش کی مگر مولانا نے فرمایا: “خاموش ہو جا یہ میری آخرت کا مسئلہ ہے مسجد کے لیے جتنی جگہ کی ضرورت ہو وہ دی جائے” اس طرح مسجد تعمیر ہو گئی مستری محمد شریف گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ جو پہلے دوسری مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اپنی مسجد کے مستقل نمازی بن گئے۔ تو گاؤں کے وڈیروں نے منع کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگے: “پہلے میں نماز نہیں پڑھتا تھا تو مجھے کسی نے مجھے نہیں کہا کہ نماز پڑھا کر اب پڑھنے لگ گیا ہوں تو سب روکنے اگئے ہیں آپ کیسے عجیب لوگ ہیں”… پھر کسی نے کوئی بات نہ کی مسجد میں نمازی بڑھنے لگے۔ جماعت بن گئی اب میں اسی مرکزی مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ: “یہ سب میرے نبی ﷺکی ادائیں ہیں کسی کو رفع الیدین کرنے پر لگا دیا اور کسی کو نہ کرنے پر لگا۔ دیا سب محبوب کی ادائیں ہیں”. اگر رفع الیدین کرنا محبوب ﷺ کی ادا ہے تو اور آئمہ اربعہ میں سے تین امام نماز میں رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں تو پھر اس کے عاملین کے ساتھ جھگڑے کیوں مساجد بننے میں رکاوٹیں کیوں؟؟۔۔۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں(5)

قاضی صاحب حفظہ اللہ نے فرمایا کہ:
“جب میں نے مسلک اہل حدیث قبول کیا تو خاندان والے ناراض ہوگئے۔ سخت سردی کا موسم تھا میں مسجد کی چٹائیوں میں لپٹ کر سو رہا، نہ کسی سے سوال کیا نہ اپنے نظریہ پر کوئی سمجھوتہ۔
اس کے بعد جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں مولانا ابو البرکات احمد رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے طبیعت میں عقیدہ کے لحاظ سے تیزی شروع سے تھی بات کو سمجھنا اور اس پر اٹھنے والے سوالات پر غور کرنا میری عادت تھی۔
میں مدرسہ میں شاید پہلی یا دوسری کلاس میں پڑھتا تھا جب ہمارے گاؤں میں ابو الحسنات مولانا علی محمد سعیدی رح تشریف لائے۔ میں نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی شخص کلی تین بار سے زیادہ کرے یا منہ تین بار سے زیادہ دھوئے تو کیا حکم ہے؟ فرمایا: جائز نہیں. میں نے کہا اگر دو بار….. تو فرمایا: ٹھیک ہے کر سکتا ہے. میں نے کہا اگر کوئی منہ ایک بار ہی دھو ئے یا ایک ہی بار کلی کرے تو فرمایا ٹھیک ہے۔۔۔ ایک بار سے کم نہیں۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا استاذ جی ایک بار سے کم تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ بھی مسکرا دیے اور فرمایا: “توں بڑا تیز ایں”.
جب میں جامعہ سے تعلیم مکمل کر کے گاؤں کی مسجد میں خطیب بنا اس وقت ماحول کافی بدل چکا تھا کئی گھرانے مسلک اہل حدیث میں شامل ہو چکے تھے ان دنوں دیوبندیوں کے ہاں کانفرنس منعقد ہوئی۔ ایک مولانا بڑے زور و شور سے نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کے دلائل ذکر کر رہے تھے۔ انہوں نے بڑے جذبات سے مسلم شریف کا حوالہ دے کر حدیث کی عبارت پڑھی:

‏إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ ‏{ ‏غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‏} ‏فَقُولُوا آمِينَ۔

اور ترجمہ اس طرح کیا: “امام بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ جب وہ اللہ اکبر کہے تم بھی اللّٰہ اکبر کہو اور جب امام قرآت کرے تم چپ رہو اور جب وہ “غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ” کہے تم آمین کہو”۔
اور چیلنج کر دیا کہ یہ مسلم شریف کی صحیح حدیث ہے۔ ہے کوئی مائی کا لعل جو اس کو غلط ثابت کر دے؟ میں کھڑا ہو گیا اور کہا کہ مولانا ذرا مسلم شریف اٹھائیں اور اس میں یہ عبارت دکھا دیں فرمانے لگے کتاب لاؤ ابھی دکھاتا ہوں. میں دوڑا دوڑا گیا گھر سے کتاب اٹھا لایا۔
میرے پیچھے مولانا صاحب فرما رہے تھے: دیکھا بھاگ گیا…. دیکھا بھاگ گیا. میں نے آتے ہی سٹیج پر جا کر مولانا صاحب کو صحیح مسلم پکڑائی اور کہا کہ اس میں سے دیکھ کر دوبارہ پڑھیں۔ مولانا نے صحیح مسلم ایک طرف رکھ دی اور مولانا سرفراز صفدر گکھڑوی کی کتاب احسن الکلام اٹھا کر اس میں سے عبارت اسی طرح دوبارہ پڑھ دی۔ میں نے ٹوکا۔۔ خیر بات بڑھ گئی۔
میں نے کہہ دیا کہ مولانا اگر آپ صحیح مسلم سے جو روایت آپ نے پڑھی ہے۔اس میں “واذا قرأ فانصتوا” کے الفاظ دکھا دیں تو آپ کو اسی وقت 100 روپے انعام دوں گا۔ (اس وقت مجھے مسجد سے ماہانہ وظیفہ-/150روپے ملتا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے مجمع سے چار پانچ اور لوگوں نے بھی 100-100 روپے انعام دینے کا اعلان کر دیا مگر مولانا صاحب صحیح مسلم شریف کھولنے کے لیے تیار نہ ہوئے. بالاخر میں نے بلند آواز سے اصل عبارت پڑھی اور مولانا کی خیانت واضح کی۔
ان کی انتظامیہ کا ایک سرکردہ، گاؤں کا با اثر بزرگ کہنے لگا: “ناں اس منڈے نے مرنا نہ ساڈی جان چھٹنی”
(نہ اس لڑکے نے مرنا ہے اور نہ ہی ہماری جان چھوٹنی ہے) اس واقعہ سے لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا۔ بعد میں بالکل اسی طرح کا واقعہ کوٹ کیسو ضلع گوجرانوالہ میں حنفی مناظر مولانا عبداللہ راشد کے ساتھ مناظرہ میں بھی دیکھنے کو ملا۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (6)

گزشتہ دنوں فضیلۃ الشیخ مولانا قاضی عبدالرشید ارشد حفظہ اللہ کی اہلیہ محترمہ وفات پا گئی تھیں۔(اللّٰہ تعالٰی انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین).
ان کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت قاضی صاحب نے ایک واقعہ سنایا:
“سردیوں میں رات 9:30/9:00 بجے کے قریب تین چار مہمان گاڑی میں آئے۔ ان سے پوچھا کہ گھر میں ساگ بنا ہوا ہے۔ فوری طور پر کھانا تیار ہے اور اگر کچھ دیر تک ٹھہریں۔تو
فریج میں گوشت پڑا ہے وہ پکا لیں۔
انہوں نے بڑی بے تکلفی سے کہا ہم آپ کے پاس ہی ہیں گوشت پکا لیں۔خیر گھر والوں نے ساگ کے ساتھ گوشت بھی بنایا اور مہمانوں کی خدمت کی۔
ان کے آنے کا مقصد پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم بڑی دور سے آئے ہیں۔ کل مناظرہ ہے آپ کو ساتھ لینے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ کیا مناظرہ آپ نے آج ہی طے کیا ہے۔ کہنے لگے نہیں طے کیے ہوئے کو تو ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ پھر میں نے کہا کہ جہاں ایک مہینہ گزرا تھا وہاں کل کا دن بھی صبر کر لیتے۔ بہرحال انہوں نے تاخیر سے آنے کا معقول عذر بھی بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ منڈی فاروق آباد سےحافظ عبدالرزاق سعیدی(رحمہ اللّٰہ) نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ بس وہاں جا کر میرا نام لیں ان شاءاللہ وہ فورا آپ کے ساتھ چلے جائیں گے۔
ہم نے رات کو کچھ کچھ ضروری کتب گاڑی میں رکھیں اور چل پڑے یہاں سے ساہو والہ/ سیالکوٹ میں مناظر اسلام مولانا محمد یحیٰی گوندلوی (رحمہ اللّٰہ)سے کچھ کتابیں لینی تھی اور ان کو بھی ساتھ لینا تھا۔
اس کے بعد ہم لاہور پہنچے جہاں مفتی مبشر احمد ربانی(رحمہ اللّٰہ)سے کچھ کتابیں لیں۔ (واقفانِ فن جانتے ہے کہ کتب احادیث تو وہی رہتی ہیں۔ان کے ساتھ فریق مخالف کے مسلک اور مشرب کے مطابق “الزام الخصم بما ھو قائله” کیلئے کچھ انکی کتب درکار ہوتی ہیں)
اور پھر آگے سفر پر روانہ ہو گئے۔ دن 10:00 بجے کے قریب ہم موڑ کھنڈا کے پاس ایک گاؤں میں ہم پہنچے۔ ہمارے میزبان کہنے لگے کہ آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔
خیر ظہر کے بعد بریلویوں کی مسجد میں ہمارا مناظرہ ہونا تھا۔ ہم وقت پر وہاں پہنچ گئے۔
تو مدمقابل مناظر صاحب نے سوال کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟۔۔۔۔میں نے بتایا جی میرا نام قاضی عبدالرشید ارشد ہے۔
وہ کہنے لگا کہ “شرائط کے مطابق مناظرہ حافظ عبدالمنان نور پوری (رحمہ اللّٰہ) سے ہونا ہے۔ میں تو ان سے ہی مناظرہ کروں گا۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (7)

میں نے کہا جی حضرت میں انہی کا شاگرد ہوں وہ بزرگ ہیں ان کی طبیعت ناساز تھی۔ اس لیے میں حاضر ہوا ہوں۔ میں آپ سے مناظرہ کروں گا۔ آپ کو زیادہ مسئلہ ہے تو میں لکھ دیتا ہوں کہ اگر میں آپ سے مناظرہ ہار گیا تو وہ حافظ عبدالمنان نورپوری(رحمہ اللّٰہ)کی شکست سمجھی جائے.
لیکن وہ مولانا اسی بات پر اڑے رہے کہ میں نے تو مناظرہ حافظ عبدالمنان صاحب سے ہی کرنا ہے۔
میں نے پھر کھڑے ہو کر کہا کہ: “مجھ سے لکھوا لیں اگر میں مناظرے میں آپ سے شکست کھا جاؤں تو میری پوری جماعت کی شکست ہوگی۔ لائیں کاغذ میں لکھ کر دستخط کر دیتا ہوں”
وہ کسی بات پر نہ آیا تو گاؤں کا مقامی نمبردار یا چوہدری جس کی نگرانی میں مناظرہ ہو رہا تھا وہ کھڑا ہوا اس نے کہا: “مولانا شاگرد جتنا بھی بڑا ہو جائے استاد سے تو اس کا رتبہ کم ہی رہتا ہے تو اگر شاگرد آپ کو ہر طرح کی یقین دہانی کرانے کو تیار ہے تو آپ مناظرے سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ آپ مناظرہ کریں”.
خیر مناظرہ شروع ہو گیا مولانا نے فرمایا کہ:
“شرائط میں لکھا ہوا ہے کہ مناظرے میں صرف صحاح ستہ سے دلائل دیے جائیں گے آپ یہ اتنی ساری فضول کتابیں کیوں اٹھا لائے ہیں”
تو میں نے احادیث کی کتب باری باری لوگوں کو دکھا کر نام لے کر کہا مولوی صاحب یہ سنن بیہقی ہے۔ حدیث کی کتاب ہے کیا یہ فضول ہے؟ یہ سنن دارمی ہے کیا یہ فضول ہے اس طرح چند حدیث کی کتابوں کے میں نے نام لیے اور کہا کہ آپ حدیث کی کتابوں کو نعوذ باللہ فضول فضول کہہ رہے ہیں۔
اس بیچارے کا تو رنگ اڑ گیا پھر شرائط کے مطابق بطور مدعی میں نے پہلی ٹرن میں خوب دلائل پیش کیے۔ مناظرے کا موضوع “فاتحہ خلف الامام” تھا۔
فریق مخالف نے اپنی پہلی ٹرن میں سنن ابن ماجہ کے حاشیہ سے احادیث کی عبارت پڑھی جس پر میں نے نقد کی کہ مولانا آپ نے ابن ماجہ کا نام لیا ہے ابن ماجہ کے متن میں یہ عبارتیں نہیں ہیں دکھائیں مجھے ابن ماجہ میں۔
وہ کہنے لگا میں ابن ماجہ سے ہی پڑھ رہا ہوں. (باہر کتاب کا ٹائٹل دکھا کر) کہنے لگا کہ یہ دیکھیں ابن ماجہ ہے.
میں نے کہا یہ ابن ماجہ ہی ہے مگر جو روایت آپ پڑھ رہے ہیں وہ ابن ماجہ کے متن میں نہیں ہے۔ وہ حاشیہ ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ حاشیہ متن سے الگ ہوتا ہے۔ متن کی توضیح کے لیے کوئی عالم بعد میں حاشیہ لکھتا ہے۔
اس طرح تھوڑی سی بات چلی اور اس بیچارے کی سٹی گم ہو گئی۔
پھر الحمدللہ بریلویوں کی اس مسجد میں عصر کی نماز کی جماعت میں نے کروائی۔ لوگوں نے پیچھے نماز پڑھی۔
وہاں اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے مسلک اہل حدیث کی صداقت کی خوب دھاک بیٹھ گئی۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔کچھ باتیں کچھ یادیں (8)

1992ء میں سرگودھا کے نواحی علاقے میں ایک صاحب نے مسئلہ رفع الیدین پر مناظرہ کا چیلنج کر دیا۔چیلنج کے الفاظ آپ بھی پڑھیں اور حظ اٹھائیں:
” پوری دنیا کے غیر مقلدوں کو چیلنج کرتا ہوں مشرق سے لے کر مغرب تک، شمال سے جنوب تک تحت الثریٰ سے لے کر عرش معلٰی تک کے غیر مقلد جمع ہو جائیں اور صرف ایک حدیث پیش کر دیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں رفع الیدین ہمیشہ کی”
اس پر مناظر اسلام مولانا مفتی مبشر احمد ربانی (رحمۃ اللہ علیہ) اور مولانا قاضی عبدالرشید ارشد حفظہ اللہ وہاں پہنچے۔فریق مخالف مناظرے کے لیے تو نہ آیا بلکہ انتظامیہ سے کہہ کر مناظرہ روکنے کی درخواست دی۔
وہاں ربانی صاحب نے مسئلہ رفع الیدین پر تفصیلی خطاب کیا۔ بعد میں قاضی صاحب کے خطاب کے دوران رقعہ آیا کہ “وقت طے کر لیں ہم مولانا امین اوکاڑوی کو بلا لیں گے اور مناظرہ ہوگا”.
قاضی صاحب نے بڑے وجد میں آ کر کہا مجھے منظور ہے آپ امین صاحب کو بلا لیں۔ جب چاہیں، جس وقت چاہیں، جہاں چاہیں میں حاضر ہوں۔ مگر یاد رکھیں وہ نہیں آئے گا پسرور کے مناظرے میں میرے سامنے جوتے چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔
اور ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ملتان میں میرا پروگرام تھا۔ساتھیوں نے بتایا کہ یہاں بالکل قریب ہی احناف کا بڑا مدرسہ ہے جہاں مولانا امین صفدر اوکاڑوی مناظرہ پڑھاتے ہیں اس لیے ہو سکتا ہے دوران تقریر سوال و جواب اور مناظرانہ رقعے آئیں۔میں نے کہا: آنے دو۔
فرماتے ہیں کہ میں نے تقریر شروع کرتے ہی کہا کہ:
” مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں قریب ہی حضرت کا مدرسہ ہے۔ میں وہاں کے طلباء اور اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے پاس آئیں میں پسرور والے مناظرے کی سی ڈیز ساتھ لایا ہوں۔ فری میں لے جائیں اور اپنے مدرسے میں انہیں چلا کر دیکھیں اور اپنے استاد صاحب سے سوال کریں کہ حضرت آپ یہ کیا گل کھلاتے رہے ہیں۔ کیا اہل حدیثوں کے خلاف کوئی معقول دلیل آپ کے پاس نہ تھی؟”
فرمایا کہ بس۔۔۔۔اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ مسلک اہل حدیث کی حقانیت پر مفصل خطاب الحمدللہ کامیاب رہا۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں(9)

قاضی صاحب حفظہ اللٌٰہ کی مجلس میں کبھی بزرگ علماء کا ذکر چھڑ جائے تو وہ منظر بڑا دیدنی ہوتا ہے۔محبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں ان کیلئے کلمات خیر اور دعا ضرور کرتے ہیں۔ایک روز شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللّٰہ کے تذکرے میں انکے اندازِ بیاں اور۔۔۔۔۔بعد وفات ان سے متعلق ایک خواب اور اللہ کے ایک ولی کی زبانی اسکی تعبیر بیان کی۔
حضرت شیخ القرآن رحمۃ اللّٰہ علیہ کے انداز بیاں اور طرزِ استدلال پر بات کرتے ہوئے فرمایا:
“ضلع گوجرانوالہ میں قلعہ دیدار سنگھ کے قریب ایک گاؤں موسیٰ دوگل ہے (جس گاؤں میں مناظرِاسلام مولانا محمد اشرف سلیم رحمۃ اللہ علیہ کا مسکن تھا)
یہاں دیوبندی حیاتی گروپ کے جلسہ کے جواب میں
اہل حدیث اور دیوبندی جمعیت اشاعت التوحید کے زیرِ انتظام مشترکہ جلسہ رکھا گیا۔
جس میں اہل حدیثوں کی طرف سے مرکزی خطیب شیخ القرآن حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ اور دیوبندیوں کی طرف سے مرکزی خطیب مولانا سید عنایت اللہ شاہ گجراتی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
(حضرت شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ جوکہ مشکل سے مشکل علمی مباحث کو پنجابی زبان میں آسان انداز اور سادہ مثالوں سے سامعین کے ذہن میں بات اتارے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے)
انہوں نے اپنے خطاب میں انسان کی پانچ زندگیاں اور پانچ عالم بیان کیے:
1:- عالم ارواح 2:- شکمِ مادر میں 3:- عالمِ دنیا (جس میں ہم رہ رہے ہیں) 4:- عالم برزخ /قبر
5:- قیامت کے بعد کی زندگی.
فرمایا کہ ان زندگیوں میں ایک ترتیب ہے۔
🔸 پہلا دور عالم ارواح ختم ہوا تو انسان شکم مادر میں منتقل ہوا جہاں 9 ماہ کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد عالم دنیا میں آیا.دنیوی زندگی مکمل ہونے کے بعد عالمِ برزخ/قبر میں منتقل ہوگیا۔جب وہ عرصہ مکمل ہوگا تو قیامت کے بعد کی زندگی کی طرف منتقل کر دیا جائے گا۔
اب انسان اسی ترتیب میں آگے کی طرف رواں دواں ہے
یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص پچھلے جہان میں واپس جائے قبر کی زندگی سے عالمِ دنیا میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ دنیوی زندگی والا شکمِ مادر میں اور اسی طرح شکم مار والا انسان عالمِ ارواح میں واپس نہیں جا سکتا۔
* فرمایا کہ جومولوی عالمِ برزخ اور عالمِ دنیا میں فرق نہیں سمجھتا اور اس کے مردے اس جہان میں آتے جاتے ہیں۔ اسے چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مولوی مردوں کی بات چھوڑے۔۔۔ وہ اس دنیوی عالم سے واپس شکمِ مادر والے جہان میں جا کر دکھائے تو ہم اس کا سارا فلسفہ مان جائیں گے۔
اس تقریر پر مولانا سید عنایت اللہ شاہ گجراتی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور فرمانے لگے:
“بلے او محمد حسینا۔۔ بلے او محمد حسینا۔اج اخیر کر دتی اے” اور حضرت شیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ کا ماتھا چوما””
؎ بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔

⁦بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں(10)

قاضی صاحب نے حضرت شیخ القرآن رحمتہ اللہ علیہ کے تذکرہ میں اپنے ایک خواب کا واقعہ سنایا۔ فرماتے ہیں۔ “ایک رات میں نے خواب میں دیکھا دیکھا کہ خانہ کعبہ🕋 کے سامنے ایک تخت سجایا گیا ہے بہت سے لوگ جمع ہیں سعودی بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما ہیں
بادشاہ نے شیخ القرآن رحمتہ اللہ علیہ کا تعارف کرواتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ:
“ایک ظالم بادشاہ خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے آ رہا تھا تو اس بزرگ نے اسے روکا ”
“میں نے اس خواب کی تعبیر اپنے استاذِ مکرم حضرت شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری (رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھی۔
انہوں نے فرمایا کہ حضرت شیخ القرآن نے ساری زندگی توحید بیان کی عقیدہ توحید کو کھول کر بیان کیا عقیدہ توحید پر پڑنے والے خس و خاشاک کو دور ہٹایا اللہ تعالی نے ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیا ہے یہ خواب کی تعبیر ہے ”
اللّٰہ تعالیٰ حضرت شیخ القرآن رحمۃ اللّٰہ علیہ کے جنت الفردوس میں درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں(11)

اسی طرح ایک مجلس میں ایک اور خواب اور اس کی تعبیر اس طرح بیان فرمائی کہ:
” میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان پر بہت بڑے سائز کی فلیکس آویزاں ہے جس پر پانچ تصاویر ہیں درمیان میں شہیدِ اسلام علامہ احسان الہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ ان کے ساتھ مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان
(جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ والے) ہیں۔
اور دونوں اطراف میں حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کی دو تصاویر ہیں یعنی تینوں بزرگوں کی ایک ایک تصویر اور حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمۃ اللہ علیہ کی دو تصاویر ہیں
* شیخ الحدیث، مولانا محمد عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر اس طرح ہے کہ انہوں نے سر پہ قراقلی ( ترکی) ٹوپی پہن رکھی ہے اور بخاری شریف کا مطالعہ فرما رہے ہیں.
میں نے اس خواب کی تعبیر اپنے استاذ محدث العصر حافظ عبدالمنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھی۔ حافظ صاحب نے فرمایا کہ: “اللہ تعالی نے ان بزرگوں کی دینی خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازا ہے اور انہیں اچھا مقام عطا فرمایا ہے” سبحان اللہ
* حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر ڈبل ہونے کی وجہ شاید یہ ہو کہ انھوں نے اس دور میں توحید اور عظمت صحابہ کا پرچار کیا جب اہل حدیث کمزور تھے اور صحابہ کرام کی عظمت کے پرچار کے “جرم” میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کی داڑھی شہید کی گئی دشمنانِ صحابہ انہیں جان سے مارنے کے درپے تھے مگر اللہ تعالی ابھی ان سے اور کام لینا چاہتا تھا۔

اللهم اغفر لهم وارحمهم وادخلهم الجنه الفردوس وارفع درجتهم في المھدیين مع الصديقين والشهداء والصالحين۔

آمین ثم آمین.

⁦بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں(12)

بزرگ علماء کی تبلیغی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک عجیب واقعہ سنایا کہ مسلک دیوبند کے ایک بڑے۔۔۔ بلکہ بہت ہی بڑے عالم جن کو حافظ الحدیث بھی کہا جاتا تھا انہوں نے پسرور میں خطاب کرتے ہوئے ایک عجیب چیلنج کر دیا کہ: “کوئی اہل حدیث عالم میرے سامنے صحیح بخاری کا ایک صفحہ صحیح پڑھ دے تو میں اس کو منہ مانگا انعام دوں گا”
پسرور میں جماعت کے مناظر،مجاہد عالم مولانا محمد رفیق خان پسروری رحمۃ اللّٰہ علیہ (رانا محمد شفیق خاں پسروری کے والد گرامی) نے اس چیلنج کو قبول کیا.اور پسرور میں ایک بڑی کانفرنس رکھی جس میں جماعت کے بزرگ شیوخ الحدیث علماء کو جمع کیا جن میں محدث العصر مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ پھر اپنے خطاب میں فرمایا کہ:
” مولوی صاحب آپ نے اپنے زعم میں بہت بڑا چیلنج کیا ہے مگر سن لو یہ 100 علماء جن میں صحیح بخاری کے حفاظ بھی ہیں اور صحیح بخاری پڑھاتے پڑھاتے ان کی عمریں گزر گئی ہیں میں ان سے علم میں بہت چھوٹا ہوں مگر آپ کے چیلنج کے جواب کے لیے میں ان شیوخ میں سے کسی کو زحمت نہیں دوں گا آپ کے جواب کے لیے میں حاضر ہوں میرے سامنے بیٹھیے، منصف بٹھائیے صحیح بخاری جہاں سے آپ کا دل چاہے میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا اور اگر میں صحیح سنا دوں تو آپ کے شرط کے مطابق منہ مانگا انعام۔۔۔۔۔ آپ سے وصول کروں گا اور وہ انعام ایسا ہوگا کہ دنیا دیکھے گی کہ رفیق خاں پسروری نے حدیث کی عبارت پڑھ کر فریق مخالف سے انعام لیا ہے۔ بس پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ کسی کو سامنے آنے کی جرأت نہ ہوئی۔
ما اہلحدیثیم دغا را نہ شناسیم۔
اسی طرح فرمایا کہ فقیر والی ضلع بہاولنگر میں دورانِ مناظرہ مولانا ابو انس محمد یحییٰ گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ حدیث کی عبارت پڑھ رہے تھے تو فریق مخالف کے کسی مولوی نے آواز لگائی کہ “عبارت غلط پڑھ رہے ہو”۔
مولانا گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً کہا “کس نے کہا ہے کہ عبارت غلط پڑھی ہے کھڑا ہو کر بتائے کیا غلطی ہے؟ بس پھر وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ گئے۔۔۔ تو نے کہا؟… نہیں. تو نے کہا؟.. نہیں. پھرکس نے کہا؟۔۔ کسی کو کھڑا ہو کر غلطی نکالنے کی ہمت نہ ہوئی۔

⁦بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں(13)

لالیاں ضلع جھنگ میں فاتحہ خلف الامام پر مناظرہ کے دوران مولانا یونس نعمانی نےمدرکِ رکوع کیلئے حدیثِ ابی بکرہ رضی اللّٰہ عنہ پڑھ کر بغیر فاتحہ نماز ہونے کا دعویٰ کیا جس پر حضرت قاضی صاحب نے سوال اٹھایا کہ اس حدیث میں الفاظ ہیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابی کو فرمایا لا تَعُد۔۔ آئندہ ایسا نہ کرنا۔
حنفی مناظر نے اس پر کہا کہ یہ لفظ لا تُعِد ہے جس کا معنیٰ ہے “تیری نماز ہو گئی اس کو مت لوٹا”۔
🔴 آپ نے ابھی اس کی عبارت غلط پڑھی ہے۔
قاضی صاحب نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ مولانا جوتا بنانا موچی کا کام ہے۔ کپڑے سلائی کرنا یہ درزی کا کام ہے۔ حدیث کو پڑھنا اور سمجھنا یہ اہل حدیث کا کام ہے تم میرے سامنے اس طرح کی چکر بازیاں نہیں کر سکو گے۔
واقف ہوں خوب مجھے غافل نہ جانئیے گا
تمہاری اک اک بات میری نظر میں ہے۔
فرمایا کہ میں نے قلعہ دیدار سنگھ کے مناظرہ میں مولانا قاضی عصمت اللہ کی موجودگی میں آپکے سامنے اس حدیث پر مفصل بحث کی تھی.
♦️ اور اس کے تینوں اعراب (لا تَعُد، لا تَعُدَّ، لا تُعِد) ثابت کر کے کچھ ایسے سوالات کیے تھے جن کا اس وقت آپ سے کوئی جواب نہ بنا تھا۔
♦️جب ایک لفظ کے تینوں اعراب ثابت ہوں تو “اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال”.. معنیٰ میں احتمال پایا جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔ آج آپ کے سارے اصول کہاں گئے؟.
♦️اس حدیث کے مطابق حضرت ابوبکرہ نماز کی حالت میں چل کر صف میں شامل ہوئے احناف کے نزدیک اس طرح نماز نہیں ہوتی۔
♦️ فقہ کی اساسی کتاب ہدایہ میں ہے:”فرائض الصلاة ستة”
نماز کے چھ فرض ہیں: تکبیر، قیام، قرات، رکوع، سجدہ اور قعدہ۔۔۔ آپکے اپنے اصول کے مطابق تین فرائض کے بغیر نماز کیسے ہوگئی؟.
مشکل بہت پڑےگی اہلحدیث سےپالا ہے
آئینہ دیکھیے گا ذرا دیکھ بھال کر

⁦بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں(14)

قاضی صاحب نے فرمایا کہ جب میں درس نظامی کے آخری سال بخاری کلاس میں تھا اس وقت حافظ آباد کے قریب چک چٹھہ نامی گاؤں میں فاتحہ خلف الامام پر مناظرہ ہوا۔ اہل حدیث کی طرف سے حافظ عبدالمنان محدث نور پوری رحمۃ اللہ علیہ اور احناف کی طرف سے علامہ منظور احمد سیالکوٹی مناظر تھے۔ (موصوف بڑے عالم بلکہ علامہ تھے مگر شاید داڑھی ابھی واجب نہیں ہوئی تھی)۔۔خوب جم کر مناظرہ ہوا حافظ نور پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی چوتھی ٹرن میں کہا: مولانا سنو! آپ نے پہلی ٹرن میں یہ تین عبارتیں اس طرح پڑھی تھیں۔ جبکہ درست اس طرح تھیں۔
دوسری ٹرن میں 5 عبارتوں میں یہ غلطیاں کیں، تیسری ٹرن میں 4 عبارتیں غلطیاں کیں۔(12 غلط عبارتیں دہرائیں اور پھر صحیح پڑھ کر سنائیں).
اور فرمایا: جو شخص حدیث کی عبارت صحیح نہ پڑھ سکتا ہو وہ اس سے استدلال کیا کرے گا اور مناظرہ کیا کرے گا۔
مد مقابل مناظر علامہ منظور احمد سیالکوٹی نے زچ ہو کر چوتھی ٹرن کے بعد عربی عبارت پڑھنا چھوڑ دی اور مناظرے کے اختتام پر اٹھ کر حضرت حافظ صاحب کا ماتھا چوما معانقہ کیا اور کہا کہ فتح شکست کی کوئی بات نہیں مجھے آج اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ کسی اہل علم شخصیت سے میرا مناظرہ ہوا۔
چک چٹھہ میں اہل حدیث کی مسجد اس مناظرہ کے بعد بنی۔ (یہ واقعہ والد گرامی سے اسی طرح سن رکھا تھا مگر حنفی مناظر کا نام مجھے یاد نہیں رہا تھا اب دوبارہ سے تصدیق بھی ہو گئی).
🟢حافظ عبدالمنان نور پوری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالی نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ راسخ العلم والحلم اور صحیح معنوں میں متبع سنت تھے۔مختصر، مدلل اور جامع گفتگو کرتے۔ ان کی تقریر “خیر الکلام ما قل ودل”کا مصداق ہوتی۔ زہد ورع علماء کے نزدیک مسلمہ۔
اکلِ حلال اور صدقِ مقال آپ کا شعار تھا۔ علمی کمال کے باوجود گھمنڈ سے کوسوں دور۔ استاد المناظرین ہونے کے باوجود طبیعت میں شوخی کی بجائے سنجیدگی، شائستگی اور متانت پائی جاتی تھی۔۔۔۔
فرمایا کہ اس مناظرے کے تقریبا ایک سال بعد اسی گاؤں میں پھر مناظرہ رکھا گیا اہل حدیث کی طرف سے مولانا حافظ عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ اور دیوبندی حضرات کی طرف سے حافظ عبدالرحمن نابینا عالم مناظر تھے۔ فریقین میں سے 10- 10 آدمی اس مجلس میں شریک تھے۔ پہلے اہل حدیث منتظم نے اپنے مناظر اور دیگر افراد کا تعارف کروایا۔ بعد میں احناف کی طرف سے مولوی یار محمد کھڑے ہوئے اور تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ہماری طرف سے جو 10 لوگ شریک ہیں سب شادی شدہ ہیں صرف ہمارے مناظر صاحب کنوارے ہیں۔
اس پر بڑا لطیفہ بنا کہ اہل حدیث کی طرف سے حافظ محمد افضل جگ کھڑے ہوئے اور مناظرہ کروانے والے حنفی مولوی عطا اللہ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: “مولوی عطا اللہ پہلے اس مناظر کو گھر لے جاؤ اور اس کا نکاح کریں پھر میدانِ مناظرہ میں لائیں تاکہ مقابلہ برابر کا ہو کیونکہ ہمارے حافظ صاحب شادی شدہ ہیں” اس پر مولوی عطا اللہ ہمارے شرم کے زمین میں گڑ گیا اور اپنے مولوی کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھنے لگا کہ چول مار کر ہمیں بے عزت کروا دیا ہے۔
دراصل جب دلائل سے دامن خالی ہو تب ایسی گفتگو سے جھگڑا پیدا کر کے اور ماحول کو خراب کر کے بھاگنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ جس طرح “مانگٹ نیچا” کے مناظرہ میں کیا گیا۔

⁦بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (15)

حافظ آباد کے نواحی گاؤں “مانگٹ نیچا” میں دو بھائی (cousin) جن میں ایک اہل حدیث اور دوسرا دیوبندی تھا ان کے مابین دوران سفر دو نمازوں کو جمع کرنا(جمع بین الصلوٰتین) کے موضوع پر بحث ہوئی اور مناظرہ طے ہو گیا۔ اہل حدیث کی طرف سے ابو انس مولانا محمد یحیٰی گوندلوی اور احناف کی طرف سے جلہن کے خطیب مولانا عصمت شاہ کاظمی مناظر تھے ابھی باقاعدہ گفتگو شروع نہیں ہوئی تھی۔اور مولانا محمد یحیٰی گوندلوی مسلم شریف کا مطالعہ کر رہے تھے کہ مولانا عصمت شاہ نے اہلحدیث مناظر کے مقابلہ میں دلائل دینے کی جرات کرنے کی بجائے۔۔۔ اچانک اٹھے اور آ کر مولانا یحییٰ صاحب پر حملہ کر دیا۔
اپنے پاؤں سے صحیح مسلم کو روندتے ہوئے مولانا کی داڑھی کو ہاتھ میں پکڑ کر کھینچا۔ جس سے مولانا کی داڑھی کے چند بال ٹوٹ کر ان کے ہاتھ میں آگئے اور صحیح مسلم کا وہ صفحہ پاؤں کے نیچے آکر پھٹ گیا۔ حدیث رسول اور داڑھی کی اہانت اور بلا وجہ ماحول خراب کرنے پر ہمارے ساتھیوں نے اس مولوی کو خوب دھویا۔۔۔۔مولوی صاحب کا منہ سوج گیا۔ کئی دن تک گاؤں میں منہ چھپا کر باہر نکلتے رہے۔
مولانا محمد ایوب خان غوری رح (پنڈی بھٹیاں والے) نے مناظرہ کروانے والے مولوی کو ٹانگوں سے پکڑ کر چھت سے نیچے لٹکا دیا کہ:
” ہن سنا انج مناظرے کرائی دے نے”.
جلہن کے مولوی عصمت شاہ ایک روز مولانا یحییٰ گوندلوی رح کی داڑھی کے بال اپنے کسی مقتدی کو دکھا کر شیخی بگھارنے لگا تو اس آدمی نے کہا کہ دُر۔۔۔ مولوی صاحب داڑھی تو سنت رسول ہے اس کی بے حرمتی کر کے آپ نے کون سا معرکہ مارا ہے۔کتنے شرم کی بات ہے۔عالم ہو کر آپ کا یہ حال ہے تو ہمارے جیسے کہاں جائیں گے۔ اس کے بعد اس نے کسی سے اس کا ذکر نہ کیا۔
جب پسرور میں مولانا قاضی عبدالرشید ارشد اللہ کے سامنے احناف کے سلطان المناظرین مولانا امین اکاڑوی کو عبرت ناک شکست ہوئی، جوتے چھوڑ کر بھاگے اور مناظرے سے جان چھڑائی۔۔تو اس کے ٹھیک 17 دن بعد قاضی صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا اس کی تفصیل حضرت شیخ کی زبانی سنیے: “مغرب کے بعد کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر نکلا تو ایک نوجوان کھڑا تھا کہ آپ کی کال آئی ہے آکر فون سن لیں۔
(اس وقت گاؤں میں سرکاری PCO ہوتا جس پر فون آتا تھا۔ آپریٹر متعلقہ گھر پیغام بھجواتا اور لوگ وہاں آ کر کال سنتے). میں نے سوال کیا کہاں سے فون آیا ہے؟.
کہنے لگا گوجرانوالہ سے۔۔۔ میں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی گوجرانوالہ میں کسی عزیز کو فون کر کے آیا تھا۔
سوچا شاید کوئی بات رہ گئی ہوگی جو انہوں نے دوبارہ فون کیا ہے میں نے کہا تم چلو میں آتا ہوں۔میں نے اپنے تایا زاد بھائی کو ساتھ لیا سردی کا موسم تھا اندھیرا چھا گیا ہم PCO کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں دو خچر ریڑھے کھڑے تھے ان کے پیچھے دونوں نوجوان لڑکے کھڑے نظر آئے ہم ان سے تھوڑا آگے نکلے تو آواز آئی جیسے پستول یا میگزین نیچے گری ہو۔ خیر اتنی دیر ہم میں ہم آگے نکل گئے وہاں پہنچے تو آپریٹر بھی حیران ہوا کہ استاد جی میں نے تو نہیں بلایا، نہ ہی کوئی فون آیا ہے ویسے بھی ہم نے بلانے کے لیے گاؤں کا فلاں آدمی رکھا ہوا ہے وہی جاتا ہے۔ ہمیں معاملہ مشکوک لگا۔

بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (16)

واپسی پر اسی جگہ دو آدمی پھر دکھائی دیے جو ہمیں دیکھ کر راستے سے پیچھے ہٹ گئے۔ ہم متوقع خطرہ کو بھانپتے ہوئے گلی میں سے سیدھا آگے روشنی میں جانے کی بجائے دوسری گلی میں مڑ گئے۔ اور ان کے وار سے بچ گئے۔
ہم نے گھر پہنچ کر بندوبست کیا اور ان کی تلاش شروع کی بالاخر دیوبندی مسجد کے واش روم میں چھپا ہوا ایک آدمی پکڑا گیا۔ اس کے پاس روسی ساختہ کلاشنکوف تھی۔ اس کی خوب چھترول کی اور پولیس کے حوالے کر دیا۔(یہ وہی تھا جو مجھے گھر سے بلانے گیا تھا). جبکہ دوسرا بھاگنے میں کامیاب ہو گیا یہ لڑکا جھنگ کا رہائشی تھا میں نے کہا: میری تیری کوئی دشمنی نہیں۔ اور اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ میں تمہیں بری کروا دوں گا بشرط کہ جنہوں نے تمہیں اس کام کیلئے بلایا ہے ان کے نام بتا دو۔
بالآخر اس نے ان لوگوں کے نام بتائے اور مزید کہا کہ پسرور والے مناظرے کے بعد یہ پلان بنایا گیا اس سے پہلے دو بار آپ ہمارے حملے سے بچ گئے تھے اور آج ۔۔۔میں پکڑا گیا ہوں۔
خیر کچھ دیر کے بعد میں نے اسے معاف کرتے ہوئے بری کرا دیا کیونکہ ہمارے اسلاف بھی دشمنوں کو معاف کرتے آئے ہیں جیسا کہ مولانا ثنا اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ پر ایک شخص نے ٹوکے سے قاتلانہ حملہ کیا مولانا کے سر میں گہرا زخم آیا مگر جیل میں پڑے ہوئے اس نوجوان کے گھر اس کے بچوں کو خرچہ بھیجتے رہے اور جب وہ جیل سے واپس آیا تو گھر سے پتہ چلا کہ جنت اور جنت کی حوروں کا وعدہ کرکے حملہ کروانے والے مولویوں میں سے کسی نے بات نہ پوچھی۔ اور جسے میں قتل کرنا چاہتا تھا اس کی طرف سے بچوں کے لیے ماہانہ خرچ آتا رہا۔اس نے مولانا سے معافی مانگی اور پکا مرید بن کر زندگی گزاری۔
میں نے بھی اپنے اسلاف کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے اس حملہ آور کو معاف کردیا اور جس دن اس کی رہائی تھی خود جیل میں جاکر اس سے ملاقات کی اور اسے واپسی کا کرایہ اپنی جیب سے دیکر الوداع کیا۔ اور دشمن کو محبت بھرا پیغام دیا کہ:
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
امید ہے اللہ تعالیٰ اس عمل کے بدلے حضرت قاضی صاحب کو اس انعام سے ضرور نوازے گا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔
(مستدرک للحاکم، 3/12، حدیث:3215)

 بزرگوں سے ملاقات۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں (قسط:17….. آخری)

مسلک اہل حدیث کا یہ عظیم مجاہد جس نے اپنی قیمتی جوانی مسلک کے دفاع میں گزار دی۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر۔۔۔دن دیکھا نہ رات جہاں ضرورت پڑی ملک کے طول و عرض میں سفر کیا۔ آج بڑھاپے میں امراضِ قلب اور شوگر کے چنگل میں پھنس کر کمزوری کا شکار ہیں اہلیہ محترمہ وفات پا گئیں۔ اللہ تعالی نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔ مگر صبر و رضا کا پیکر بنے ہوئے کوئی جماعتی ساتھی ملنے آ جائے تو ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔ چہرہ خوشی سے کھِل جاتا ہے۔
مگر افسوس۔۔۔۔۔ کہ ہمارا اپنے ان خطباء اور علماء کے ساتھ رابطہ اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک خطیب سٹیج کی رونق رہے، مناظر میدانِ مناظرہ میں گرجتا ہو۔
خطیب کی آواز خراب ہو گئی تو خطیب سے رابطہ ختم، مناظر بوڑھا ہو جائے بس عقیدت گئی، محبتوں کا اظہار ختم۔
بابائے جماعت مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بات یاد آ گئی فرمایا کرتے تھے:
“جب تک مولوی کی زبان چلتی ہے اس وقت تک زندہ باد اور قدم بڑھاؤ۔۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں کہ نعرے گونجتے ہیں جب مولوی بڑھاپے کی وجہ سے تقریر نہ کر سکے سب رابطے اور اظہار محبت ختم”
اسی طرح والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ جب ہم 1961ء میں جامعہ سعیدیہ خانیوال میں پڑھنے کے لئے گئے تو وہاں ایک استاد صاحب (جن کا نام مجھے بھول گیا ہے) نے مجھ سے علامہ محمد یوسف کلکتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ (جو کہ ان دنوں دارالحدیث محمدیہ حافظ آباد میں مدرس تھے)کو خط لکھنے کیلئے انکا ایڈریس لیا۔ کچھ دنوں بعد میں نے استاذ جی سے پوچھا کہ علامہ صاحب کی طرف سے خط کا جواب آیا تو انھوں نے فرمایا خط کا جواب مطلوب نہیں تھا دراصل علامہ صاحب کو کسی بزرگ عالم (جو کہ آج کل بڑھاپے کی وجہ سے بیمار ہیں اور علاج کے لیے وسائل نہیں) کی خدمت کرنے اور کروانے کے لیے ترغیب دینا مقصود تھا۔
والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ گاہے بگاہے یہ واقعہ سناتے اور “مولوی ہونے کے باوجود” خود بھی اس پر حسبِ استطاعت عمل کرتے.
جماعت کے اکابرین اور اصحابِ خیر کی علماء کے اِکرام کے اس پہلو پر بھی توجہ بہت ضروری ہے۔ یاد رہے کہ میں تو دیسی وضع کا خالص دیہاتی اور ان پڑھ بندہ ہوں میں نے اپنی سوچ کے مطابق علمائے کرام سے محبت کے اظہار کے لیے چند الفاظ تحریر کیے ہیں اگر کسی کی طبع نازک پر کوئی لفظ گراں گزرا ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور اگر تحریر کے اس سلسلہ سے کسی کو نیک عمل کی توفیق میسر آ جائے تو یقینا میرے لیے بھی ایک سعادت ہوگی۔
💎یہ علماء کرام ہی علم کے وہ روشن چراغ ہیں جن سے علم و عمل کے ہزاروں چراغ روشن ہوئے اور دین حق کا نور قریہ قریہ پہنچا۔
اللھم وفقنا لما تحب وترضیٰ۔

عبدالرحمٰن سعیدی

یہ بھی پڑھیں: ابو عبیدہ مشہور آل سلمان السلفی الاثری