سوال (2007)

c
اعرابی کہنے لگا، کیا واقعی اللہ (خود حساب لے گا ) ؟ فرمایا: ہاں خود اللہ حساب لے گا، یہ سن کر اعرابی کہنے لگا: رب کعبہ کی قسم: پھر تو ہم نجات پاجائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کیسے؟ اعرابی نے کہا: وہ اس طرح کہ (اللہ بہت کریم ہے اور ) کریم جب کسی کو پکڑتا ہے تو معاف کردیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنے رب کو پالیا ہے۔

جواب

یہ واقعہ مشہور تو ہے، لیکن ثابت نہیں ہے۔
اس واقعے سے متعلق سوال کا جواب ہمارے ایک مرحوم دوست مولانا اسحاق سلفی رحمہ اللہ نے آج سے آٹھ سال پہلے دیا تھا، میں پہلے ان کے الفاظ نقل کرتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ ان کی یہ کاوشیں ان کے لیے بلندی درجات کا ذریعہ بن رہی ہوں گی۔ ان شاءاللہ. اسحاق سلفی مرحوم فرماتے ہیں:
یہ روایت امام بیہقی ( ابو بکر احمد بن حسین البيهقي (المتوفى: 458هـ) نے ’’ شعب الایمان ‘‘ جلد ۱ صفحہ ۴۲۱۔میں نقل فرمائی ہے :

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، في التاريخ، حدثنا أبو محمد الحسن بن محمد بن إسحاق الأزهري، حدثنا محمد بن زكريا الغلابي، حدثنا عبيد الله بن محمد التيمي، حدثنا أبي، عن عمه، عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة قال: قال أعرابي: يا رسول الله، من يحاسب الخلق يوم القيامة؟ قال: ” الله “. قال: الله؟ قال: ” الله “. قال: نجونا ورب الكعبة قال: ” وكيف يا أعرابي؟ ” قال: لأن الكريم إذا قدر عفا ‘‘

ابو ہریرہ فرماتے ہیں :
ایک اعرابی نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: روز قیامت خلق سے کون حساب لے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ۔
اعرابی کہنے لگا ، کیا واقعی اللہ (خود حساب لے گا)؟
فرمایا :ہاں خود اللہ حساب لے گا،
یہ سن کر اعرابی کہنے لگا: رب کعبہ کی قسم : پھر تو ہم نجات پاجائیں گے،
آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کیسے؟
اعرابی نے کہا: وہ اس طرح کہ (اللہ بہت کریم ہے اور ) کریم جب کسی کو پکڑتا ہے تو معاف کردیتاہے،
یہ روایت نقل کرکے امام بیہقی فرماتے ہیں:

أخبرنا أبو الحسن بن علي بن محمد المقرئ الإسفراييني بها، حدثنا الحسن بن محمد بن إسحاق، فذكره بإسناده نحوه ” تفرد به محمد بن زكريا الغلابي، عن عبيد الله بن محمد ابن عائشة، والغلابي متروك‘‘
یعنی اس روایت میں محمد بن زکریا الغلابی متفرد ہے اور وہ ’’ متروک ‘‘ ہے۔

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:
وقال الدارقطني: يضع الحديث ‘‘ امام دارقطنی فرماتے تھے کہ الغلابی احادیث گھڑتا تھا۔
اور علامہ السخاوی ۔۔المقاصد الحسنہ۔ میں اس روایت کو نقل کرکے لکھتے ہیں: (ويشبه أن يكون موضوعا، ) یہ موضوع ہے۔
اسحاق سلفی صاحب کا جواب مکمل ہوا۔ اس میں مزید اضافہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ امام بیہقی کے علاوہ یہ تاریخ نیسابور اور امالی ابن بشران وغیرہ میں بھی ہے، لیکن سب کا مدار محمد بن زکریا الغلابی پر ہی ہے۔
امام بیہقی نے یہ روایت نقل کرکے نہ صرف اس کا ضعف بیان کیا ہے، بلکہ اس سے جس بات پر استدلال کیا جا رہا ہے، اس کی تردید بھی کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حساب کتاب کا مرحلہ بہت کڑا ہو گا، اللہ کی رحمت سے پر امید ہونا ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے حساب کتاب اور پکڑ سے ڈر بھی ایمان کا حصہ ہے۔
یقینا اللہ تعالی اپنے رحمت سے اپنے بندوں کو معاف فرمائے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی سب کو معاف کر دے گا۔
حشر کا دن اتنا سخت ہو گا کہ خود انبیاء بھی اس کی ہیبت سے گھبرا جائیں گے۔ پھر اللہ تعالی انبیاء اور اہل ایمان کو ثابت قدمی سے نوازے گا۔
امام سمعانی نے تفسیر میں اس روایت کو ذکر کر کے ’غریب’ قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:

«{فَإِنَّمَا حسابه عِنْد ربه} هَذَا فِي معنى قَوْله تَعَالَى: {ثمَّ إِن علينا حسابهم} ، وَرُوِيَ ” أَن أَعْرَابِيًا أَتَى النَّبِي وَقَالَ: وَمن يحاسبنا يَوْم الْقِيَامَة؟ قَالَ: الله. قَالَ: ‌نجونا ‌وَرب ‌الْكَعْبَة، إِن الْكَرِيم إِذا قدر غفر ” وَالْخَبَر غَرِيب». [تفسير السمعاني 3/ 495]

اس کے علاوہ المقاصد الحسنۃ، کشف الخفاء، اتقان ما یحسن وغیرہ مصنفات میں بھی اس کو ذکر کے امام بیہقی کی تضعیف بیان کی گئی ہے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت واعظین کے ہاں کافی مشہور رہی ہے، لیکن کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ