سوال (1797)

کیا بے نماز کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی کوئی قربانی قبول نہیں ہوگی اور اسے مچھر کے پر کے برابر اجر نہیں ملے گا؟ ایسا کہنا درست ہے؟

جواب

بے نماز ہونا یقینا جرم عظیم ہے، مگر یہ کہنا کہ اس کی قربانی کرنے کا اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، یہ حد سے تجاوز ہے، اسے تلقین کرکے نماز کی طرف لانا چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث “بشروا و لاتنفروا و یسروا و لاتعسروا” کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگوں کو متنفر نہ کرو، خوشخبریاں سناؤ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص نماز کی فرضیت کا انکاری ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، لیکن جو شخص تارک نماز ہے، نماز کی فرضیت کا انکاری نہیں ہے، اس بارے میں اہل علم کے درمیان ایک لمبا چوڑا اختلاف ہے، مگر راجح بات یہی ہے کہ ایسے شخص کو تلقین کی جائے گی کہ آپ نماز پڑھیں، نماز نیکیوں میں سر فہرست ہے، نماز کے علاؤہ قربانی کا کیا فائدہ ہے، اس طرح اس کو سمجھایا جائے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ‌ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ‌ؕ” [سورة النحل : 125]

«اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے»
اس آیت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ بے عمل لوگوں کو قریب کیا جائے، نہ کہ فتوے لگا کر ان کو دور کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ

اس مسئلہ کا تعلق “حکم تارك الصلاۃ” سے ہے۔
جن علماء کے ہاں تارک نماز کافر ہے ان کے ہاں اس کی قربانی قبول نہیں ہے، کیونکہ کافر کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے اور جن علماء کے ہاں بے نماز کافر نہیں بلکہ فاسق و فاجر ہے تو ان کے ہاں بے نماز کی قربانی درست ہے۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

عملا ہمارے معاشرے میں ایسی باتیں کرنے کی بجائے اگر کوئی قربانی کے ذریعے ہی دین سے جڑا ہوا ہے تو اسے مزید قریب لانے کی کوشش کرتے ہوئے نماز کی تبلیغ کرنی چاہیے۔
باقی تارک صلاہ کے متعلق علمی اختلاف طویل ہے۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

سوال: اہل علم اس حوالے سے رہنمائی کریں۔

“الذي لا يصلي كافر مرتد عن الإسلام لا تحل ذبيحته” [الشيخ ابن عثيمين رحمه الله، نور على الدرب 20/2]

هل يجوز اكل ذبيحة الشخص الذي لا يصلي علماً بأنه يذكر اسم الله عليها عند الذبح؟

الجواب: ما دام لا يصلي، لاتؤكل ذبيحته علي الصحيح، لأن الصحيح من اقوال العلماء أن تارك الصلاة يكون كافراً كفراً أكبر ،فلا تحل ذبيحته إذا ذبحها بيده ولو سمي، لانه يعتبر مرتداً عن الاسلام، نسأل الله العافية، [ابن باز رحمه الله، نور علي الدرب: 197/24]

جواب: سب سے پہلے اصل مرجع سے فتوے کو نکال کر دیکھ لیا جائے، کیا شیخ نے کچھ شروط و قیود ذکر کیے ہیں یا نمازیوں کو کوئی تقسیم بیان کی ہے کہ کس قسم کے نمازی پر یہ فتویٰ ہے، ہماری دانست میں اس سے مراد وہ شخص ہے جو مستقل اور ہمیشہ کے لیے بے نمازی ہے، کبھی اس نے نماز نہیں پڑھی، اور نہ ہی وہ پڑھنا چاہتا ہے، پھر تو ٹھیک ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: بے نماز کی قربانی جائز نہیں ہے؟
جواب: اگر دائمی اور ہمیشگی کا بے نماز ہے تو واقعتا ایسے بندے کی قربانی نہیں ہوگی اور اسے دوسرے انداز سے دیکھے کہ قرآن مجید میں جہاں قربانی کا ذکر ہے وہاں پہلے نماز ہے بعد میں قربانی ہے اور نماز کے متعلق ہی قیامت کے دن سب سے پہلے سوال ہونا ہے تو نماز کی پابندی لازمی اگر نماز نہیں پڑھتا تو قربانی نہیں ہوگی۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ عبد الباسط شیخ حفظہ اللہ

دیکھیں جو دائمی بے نمازی ہے، اس پر تو کفر کا فتویٰ موجود ہے، لیکن ہمارے ہاں اسی یا نوے فیصد کے لوگ اس طرح کے نہیں ہیں، ہمارے ہاں نمازوں میں ڈنڈی مارنے والے ہیں، کبھی دو، کبھی تین پڑھ لیتے ہیں، ان کا معاملہ ان کے رب کے ساتھ ہیں، خیر و بھلائی کے کاموں میں کبھی آپ کے ساتھ آجاتے ہیں، ایسے لوگوں کو ہم متنفر نہیں کر سکتے ہیں، ایسے لوگوں کا معاملہ رب کے ساتھ ہے، بے نمازی کا فیصلہ تو کرلیا ہے کہ اس کی قربانی نہیں ہے، لیکن جو ہم کرتے ہیں، ان میں سے کس کی گارنٹی ہے تو اس کی قربانی ہے، بس دلائل کی رو سے حسن ظن ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: ایک بندہ ساری زندگی نماز نہیں پڑھتا، زکاۃ نہیں دیتا ہے، کیا اس کی قربانی ہو جائے گی۔

جواب: اللہ قبول کرنے والا ہے اس کو قربانی کرنی چاہیے، باقی نماز اور زکوۃ فرض ہے اسے ترک نہیں کر ناچاہیے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ