سوال (4753)
اگر بے نمازی شھید ہو جاتا ہے، اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب
دیکھیں کہ شہادت کی ڈگریاں اس طرح نہیں بانٹنی چاہییں، یہ ایک بہت بڑا شرف ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے، باقی اچھا گمان رکھنا اچھی بات ہے، دو ٹوک کسی کی جنت، جہنم اور شہادت کا فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے شاید باب قائم کیا ہے کہ “باب لا یقال لاحد شهید” کسی کو شھید نہ کہا جائے، باقی شریعت نے کسی کو شہید کہہ دیا ہے تو ٹھیک ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کو شہادت کا مقام عطا فرمایا ہے، ساتھ میں شہید بھی کہہ دیتے ہیں، تو ان شاءاللہ کے ساتھ کہیں، رجاء اور تمنا کے ساتھ کہیں، دعا کے ساتھ کہیں تو ٹھیک ہے، باقی دو ٹوک طریقے سے نہیں کہنا چاہیے، جب ہمیں شہادت کا ہی پتا نہیں ہے تو فتوے کیوں صادر فرماتے ہیں، تو نامزد کرکے کسی کو بھی شہید نہیں کہنا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: کسی کو بھی نامزد نہیں کیا جا رہا ہے، یہاں پر سوال صرف یہ ہے کہ کیا شہید کو نمازوں کی معافی مل جائے گی یا اسے بے نمازیوں کی سزا سے گذر کر شہادت والا مقام ملے گا؟
جواب: دیکھیں پہلے اس کو فائنل کیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ شہید ہے، اگر وہ شہید ہے تو پھر اس کو شہادت کے تمام فضائل ملیں گے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ