سوال
ایک بندے نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی ، پھر تقریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد بغیر رجوع کیے وہ دوسری طلاق دیتا ہے ، آیا یہ دوسری طلاق شمار ہوگی یا نہیں؟ مشائخ کرام راجح قول کے مطابق رہنمائی فرمائیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس مسئلہ میں علمائے کرام کے مابین دو آراء پائی جاتی ہیں، دونوں طرف معتبر علمائے کرام ہیں، ہم سب کی رائے کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہماری رائے اور فہم کے مطابق دوسری اور تیسری طلاق کے لیے رجوع کی شرط نہیں ہے۔ خاص طور پر جب ایک حیض کا وقفہ آجائے تو اکثر علمائے کرام کے نزدیک بغیر رجوع کیے دوسری یا تیسری طلاق معتبر ہوگی، زیادہ تر ہمارے ہاں اس پر فتویٰ دیا جاتا ہے، باقی یکے بعد دیگرے یا ایک مجلس میں بہت ساری طلاقیں جب ایک حیض میں ہی دے دی جائیں تو پھر ایک ہی طلاق شمار ہوگی، لیکن جب حیض کا وقفہ آجائے تو بغیر رجوع بھی طلاق شمار کی جائے گی، امام ابن منذر نے اس بات کی تائید پر اجماع نقل کیا ہے۔ اور شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ بیان کیا کرتے تھے کہ اس مسئلہ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پہلے کوئی اختلاف نہیں تھا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور انکے نہج پر چلنے والے علماء کا یہی موقف ہے کہ جب تک رجوع نہیں کرے گا، تب تک دوسری طلاق نہیں دے سکتا ہے۔
بہر حال دونوں طرف علماء کی آراء اور دلائل موجود ہیں، ہمارے علم و فہم کے مطابق دوسری یا تیسری طلاق کے لیے رجوع کی شرط نہیں ہے۔ لہذا مذکورہ میاں بیوی کی دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ اب اگر عدت باقی ہے تو رجوع کرسکتے ہیں، اور اگر عدت گزر گئی ہے تو تجدیدِ نکاح کیساتھ دوبارہ اپنا گھر بسا سکتے ہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ