بہن کی وراثت
یاد رہے کہ والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکے میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد یعنی بیٹوں کا حق ہے، بالکل اسی طرح بیٹیوں کا بھی حق و حصہ ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکے پر بیٹوں کا خود تنِ تنہا رعب جما کر قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، جس کا بھیانک انجام ہو سکتا ہے، اس لیے بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق و حصہ اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا، آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، اور جب تک بھائی بہنوں کو ان کا حق نہیں دیں گے، اس وقت تک یہ حق ان کے ذمہ لازم رہے گا۔ بہنوں کو طرح طرح کے طعنے دے کر یا دھما کر ترکے سے دستبردار کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے، یہ بھی یاد رہے کہ جو بھائی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری بہنیں ہم سے ترکہ و ورثہ لینے آئی ہی نہیں تھی، ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ کسی کا حق و حصہ کھانا کس قدر بھیانک ہوسکتا ہے، جو بہنیں ترکہ و ورثہ کا مطالبہ کرتی ہیں، تو بھائیوں کی طرف اس بات کو اچھال کر لڑائی کو رنگ دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ اپنا حق و حصہ لینی آئی تھی، ایسی بھی مثالیں اس معاشرے میں مل سکتی ہیں کہ بہن نے اپنے حصے کا مطالبہ کیا تو بھائی نے پوری زندگی بائیکاٹ کرلیا۔۔۔
آج کل معاشرے میں بھائی بڑی دلیری سے بہنوں کی ملکیت و وراثت کھا کر بیٹھے ہیں، بھلے ان بھائیوں کے نام سخاوت و فیاضی میں دنیا میں اعلی سطح پر ہوں، لیکن سوچنا چاہیے کہ بہن کا حصہ جو میں ہڑپ کرکے بیٹھا ہوں، میرے کونسے صدقات و خیرات قبول ہونگے؟ بہن کے ورثے کو ہڑپ کرکے بڑے بڑے فائونڈیشن اور ادارے چلانے کی کیا ضرورت ہے، لیکن وہ بہنیں جب بیمار پڑتی ہیں یا ان پر ناسازگار حالات آتے ہیں، یہ بھائی اپنے جیب سے انہیں بہنوں کو علاج کے لیے ایک ٹکہ بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس معاشرے نے ایسی مثالیں دی ہیں کہ بہنیں پوری دنیا میں ایک لقمہ اور چند ٹکوں کے لیے ہاتھ پھیلاتی ہیں۔ بھائیوں کے دل میں ترس و رحم کا شائبہ تک نہیں آیا ہے۔ آج کل تو بڑے رنگ دیکھنے میں آتے ہیں، بہنوں کا ترکہ کھا کر بڑی گاڑیوں پر بیٹھ کر طرح طرح کے ٹورز کیے جاتے ہیں، طرح طرح کے کھانے کھائے جاتے ہیں، طرح طرح کی عیاشیاں کی جاتی ہیں، لیکن وہی بہنیں فقر وفاقہ کے دن گذار رہی ہوتی ہیں، جن کی ملکیت ہر ان کا بدمعاش بھائی عیش کر رہا ہوتا ہے۔
افضل ظہیر جمالی