سوال (4703)
دو مسئلے اور بھی درپیش ہیں براہ کرم رہنمائی کر دیجئے، مسئلہ یہ ہے کہ میری دو بہنیں ایسی ہیں کہ جن میں سے ایک کا شوہر فوت ہو چکا اس میں سے اس کے چار بچے ہیں اور اس نے دوسرا شوہر کر لیا اور وہ شوہر اس کی اولاد کی کفالت نہیں کرتا تو کیا میں اس بہن کو پیسے دے سکتی ہوں کہ وہ اپنے یتیم بچوں پر خرچ کر لے اور یہ بھی نہیں پتا کہ وہ ان پر خرچ کرے گی یا گھر پر خرچ کرے گی جس میں کہ اس کا شوہر اور وہ خود بھی رہتی ہے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میری ایک دوسری بہن جو ہے اس کا شوہر کماتا نہیں ہے لیکن گھر ان کا اپنا ہے تھوڑی سی زمین بھی ہے جو کہ انہوں نے مرغیاں وغیرہ رکھ کے فل کی ہوئی ہے اس کے علاوہ زیور بھی ہے جو وہ بیچنا نہیں چاہتی کہ میرے کل کو بچے بڑے ہوں گے تو ان کے کام ائے گا لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ان کے معاشی حالات سٹیبل نہیں ہیں اس کا ایک بیٹا ہے جو کہ ذہنی طور پر معذور ھے اور وہ اس کی دوائی ٹھیک سے افورڈ نہیں کر سکتی تو کیا میں اپنے صدقے کے پیسوں سے اس کو دوائی لے کے دے سکتی ہوں,
کیونکہ میرے بھی حالات اس طرح کے نہیں ہیں کہ میں اس کی باقاعدہ اور رشتہ داری کی بنا پر کفالت کر سکوں تو رہنمائی کیجئے کہ کیا میں صدقے کے پیسوں سے اس کے بچے کو دوائی لے کے دے سکتی ہوں؟
جواب:
پہلا مسئلہ: بہن جس کے یتیم بچے ہیں اور دوسرا نکاح کر چکی ہے۔
کیا آپ اس بہن کو صدقہ یا زکوٰۃ دے سکتی ہیں؟
جی ہاں، اگر درج ذیل شرائط پائی جائیں تو دے سکتی ہیں:
اگر آپ کی بہن اور اس کے بچے “مستحق زکوٰۃ” ہیں تو آپ زکوٰۃ یا صدقہ دونوں دے سکتی ہیں۔
اگر بچے یتیم اور نادار ہیں، اور ان کی کفالت کوئی نہیں کر رہا، اور ان کی والدہ (آپ کی بہن) بھی مالی طور پر کمزور ہے، تو انہیں دینا افضل ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
«أنا وكافل اليتيم في الجنة هكذا»
“میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے (اور انگلیوں سے قریب ہونے کا اشارہ کیا)”
اگر شک ہو کہ وہ بچوں کے بجائے شوہر یا اپنے ذاتی استعمال پر خرچ کرے گی، تو بہتر یہ ہے کہ:
آپ خود کسی طریقے سے بچوں کی ضروریات (خوراک، کپڑے، کتابیں وغیرہ) کا سامان لے کر دیں۔ یا ان کے اسکول یا دواخانے وغیرہ میں براہ راست ادائیگی کر دیں۔
اگر آپ کے صدقہ دینے کا اصل مقصد یتیم بچوں کی مدد ہے، تو وہ نیت ان شاء اللہ قبول ہو گی، اگرچہ ماں کبھی کچھ پیسے خود پر بھی خرچ کر لے۔
دوسرا مسئلہ: بہن جس کا شوہر کماتا نہیں، بیٹا معذور ہے، اور وہ زیور بیچنا نہیں چاہتی
کیا آپ اسے صدقہ یا زکوٰۃ دے سکتی ہیں؟
یہاں معاملہ تھوڑا تفصیل طلب ہے:
اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ ان کو دی جا سکتی ہے جو “فقیر یا مسکین” ہوں یعنی ان کے پاس نہ اتنی نقدی ہو، نہ اتنا سونا چاندی ہو، نہ اتنا سامان کہ جو “نصاب” کو پہنچ جائے۔اور وہ ضروریاتِ زندگی پوری نہ کر پا رہے ہوں۔
اگر آپ کی بہن کے پاس کچھ زیور، تھوڑی زمین، اور گھر موجود ہے، لیکن اس کے باوجود وہ معذور بچے کی دوا نہیں خرید سکتی، اور باقی ضروریات میں سخت تنگی ہے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت زیور رکھے ہوئے ہے مگر وہ استعمال میں نہ آتا ہو اور ضروریات پوری نہ ہوں، تو ایسی صورت میں وہ زکوٰۃ کی مستحق ہو سکتی ہے۔
لہٰذا اگر واقعی وہ زکوٰۃ و صدقہ کی مستحق ہے (جیسا کہ آپ نے ذکر کیا کہ دوا افورڈ نہیں کر سکتی)، تو آپ اس کی مدد کر سکتی ہیں، چاہے دوا کے ذریعے ہو یا رقم کی صورت میں۔بہتر یہ ہے کہ آپ دوا خود لے کر دے دیں، تاکہ نیت بھی محفوظ رہے اور خرچ صحیح جگہ ہو۔اگر آپ ان دونوں بہنوں کو زکوٰۃ یا صدقہ دیں گی، تو اس سے آپ کی رشتہ داری بھی جُڑی رہے گی اور نبی ﷺ نے فرمایا:
الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذي الرحم ثنتان: صدقة وصِلة»
“مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پر صدقہ، صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔”
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
دیکھیں وہ اپنے گھر والی ہے، آپ اپنے گھر والی ہیں، آپ اس کے کفیل نہ ہوں، باقی صدقہ و خیرات دے دیں، اس کا شوہر ذمے داری نہیں اٹھا رہا، یہ بات پہلے کرنی تھی کہ اس کا شوہر ذمے داری اٹھائے گا یا نہیں اٹھائے گا، بہرحال وہ آزاد ہے، آپ اپنی بہن کو پابند کریں کہ میں آپ کو بچوں کے لیے دے دوں، اس کو آپ بچوں پر ہی خرچ کریں، یا آپ خود اپنے ہاتھ سے کریں، یہ زیادہ بہتر ہوگا، ورنہ اس کا شوہر مزید ہڈحرام ہو جائے گا، دوسری کا شوہر نقمہ ہے، ایسے لوگوں کو تو سزا دینی چاہیے، لیکن خاموشی کے ساتھ دو اور اس کے علاؤہ مدد کردیں، اپنی بہن کو سمجھائیں کہ یہ اس کے نقمے کے پاس نہ جائے، کیونکہ وہ مزید چوڑا ہوکہ بیٹھ جائے گا، سبق بھی سیکھانا چاہیے، باقی آپ کے لیے جائز ہے، آپ ان کی کفالت کر سکتی ہیں، صدقہ و خیرات سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، دوسری والی ترغیب دیں کہ اس کا زیور کتنا ہے، اگر وہ زکاۃ کو پہنچے تو اس پر زکاۃ فرض ہے، یہ یاد رکھیں کہ جس پر زکاۃ فرض ہے، اس پر زکاۃ نہیں لگے گی، یہ اچھی طرح سمجھ لیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ