علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جس کی اردو ترجمانی کچھ اس طرح ہے:
’بے شمار مقامات پر انسان ’’خواہش نفس‘‘ میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ خود میں نے تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ میں کسی مسئلہ میں غور وفکر شروع کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ میں خواہش نفس سے بالکل بری ہوں ، چنانچہ میں (دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد) ایک موقف اختیار کرلیتا ہوں، لیکن پھر بعد میں واضح ہوتا ہےکہ نہیں فلاں دلیل میرے اس موقف کےخلاف ہے تو میں دل ہی دل میں اس دلیل کو رد کرنے کے لیے بے جا بحث شروع کردیتا ہوں، میرا نفس مجھے مجبور کرتا ہے کہ تکلفاً اس کا کوئی غلط سلط جواب گھڑ لوں۔
یہ ساری کیفیت کیوں ہوتی ہے کیونکہ میں پہلی دفعہ دلائل کی بنیاد پر ایک بات کو حق تصور کر چکا ہوں حالانکہ ابھی تک یہ بات میرے ذہن میں تھی کسی اور کو پتہ نہیں تھا۔
آپ اندازہ لگائیں اس وقت کیا کیفیت ہو گی جب میں اس بات کو لوگوں میں پھیلا چکا ہوں گا اور پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگا؟
اور ممکن ہے مجھے خود اپنی غلطی کا اندازہ ہو ہی نہ بلکہ کوئی اور میرے اوپر اعتراض کرے تو ایسی صورت میں کیا کیفیت ہوگی؟
بلکہ ممکن ہے یہ اعتراض میرے مخالفین میں سے کوئی کر دے تو پھر کیا حالت ہوگی؟
ہاں: اس سب کے باوجود کسی عالم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر ’’خواہش نفس‘‘ کا مادہ ہی نہ ہو کیونکہ یہ بات تو انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے ۔ البتہ یہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کا جائزہ لے اور محاسبہ کرے اور خواہشات کی پہچان کرے اور پھر ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے: حق تلاش کرنے میں مکمل غور وفکر کرے ، پھر اگر اس کے لیے واضح ہوجائے کہ حق وہ نہیں جو میں نے سمجھا تھا تو اس کو اپنی خواہشات کی قربانی دے کر حق بات کی پیروی کرنی چاہیے’۔
علامہ رحمہ اللہ کی اپنی عبارت کچھ اس طرح ہے:
