سوال (2802)

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے جو پیسے غریب خواتین کو دیے جاتے ہیں، اس حوالے سے کوئی فتوی وغیرہ آپ کے پاس موجود ہے، اور کیا شاپ پر اس کی سروس دی جا سکتی ہے، اور اس پر اضافی کٹوتی کرکے پیسے لیے جا سکتے ہیں، مثلا، کمپنی کمیشن کے علاوہ، ہزار روپے خواتین سے، یاد رہے خواتین خوشی سے وہ کمیشن دیتی ہیں۔

جواب

بینظیر انکم سپورٹ میں نادار اور مستحق افراد کے ساتھ صدقہ و زکاۃ وغیرہ کی مد سے تعاون کیا جا سکتا ہے، جو اس کے واقعتا مستحق ہیں وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کوئی حرج نہیں۔
وہ دکاندار جو پیسے نکال کر دینے کی سروسز دیتے ہیں، ان کی جو جائز فیس بنتی ہے، وہی لی جا سکتی ہے، اضافی کٹوتی کس وجہ سے؟ صرف اس وجہ سے کہ چونکہ انہیں پیسے فری میں مل رہے ہیں، لہذا اس میں آپ جتنی مرضی کٹوتی کر لیں؟ یہ جائز نہیں ہے۔ اس کی مثال کسی بھی تنخواہ دار یا وظیفہ یاب شخص کی سی ہے، اسے جو تنخواہ یا وظیفہ ملتا ہے، آپ اسے پیسے نکال کر دینے کی جو مناسب فیس بنتی ہے، لیں، اضافی کٹوتی کرنا یہ درست نہیں ہے۔
پہلے اس قسم کی امدادیں علاقے کے وڈیروں اور آفیسرز کے توسط سے آتی تھیں، جس کو وہ خود ہی ہڑپ کر جاتے تھے، اسی مسئلے کے تدارک کے لیے انہوں نے مستحقین کے بینک اکاؤنٹس کھولے اور امدادی رقوم کی ترسیل کو آن لائن کیا، لیکن چونکہ عام لوگوں کو اتنی بھی سمجھ بوجھ نہیں آتی، وہ پھر کسی نہ کسی پڑھے لکھے کے محتاج ہوتے ہیں، جو انہیں پیسے نکال کر دے، اس لیے آئے دن سننے میں آتا ہے کہ جاز کیش ایزی پیسے کی سروسز فراہم کرنے والے، ان سے اس ضمن میں بھی فراڈ کر لیتے ہیں، اللہ تعالی سب کو ہدایت عطا فرمائے۔
یاد رہے بعض لوگ اس قسم کی امدادی رقوم کے مستحق نہیں ہوتے، لیکن اونچ نیچ یا غلط بیانی کر کے نام لکھوا لیتے ہیں، ان کا یہ فعل غلط ہی ہے، ہماری کسی بھی بات سے اس کا جواز کشید نہ کیا جائے۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

سوال: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے کارڈ پر پیسے آتے ہیں، ڈوائیس اس پر دس پندرہ ہزار پر ہزار روپیہ کاٹتے ہیں، کیا یہ ڈوائیس کا کاروبار اور اس پر پیسے کاٹنا کیسے ہیں۔

جواب: حکومت کی طرف سے بینظیر سپورٹ پروگرام کے پیسے کسی خاتون کے شناختی کارڈ نمبر پر آتے ہیں اور مختلف دکانداروں کے پاس ڈیوائسز ہیں جہاں سے بائیو میٹرک انگوٹھا لگا کر پیسے وصول کیے جا سکتے ہیں۔

ڈیوائس رکھنے والے دکاندار کو ہر ٹرانزیکشن پر معقول فیس اور کمیشن کی ادائیگی حکومت کی طرف سے ہوتی ہے اور خاتون کو اس کے پورے پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں جبکہ بہت سے دکاندار حضرات اپنی فیس اور کمیشن کے علاوہ جو خاتون اپنے پیسے لینے آتی ہے اس کے پیسوں میں سے بھی پانچ سو یا ہزار روپے رکھ لیتے ہیں یہ ڈیوائس رکھنے والے دکانداروں کی ہٹ دھرمی اور ظلم پر مبنی عمل ہے۔

ڈیوائس رکھنا اور کاروبار کرنا تو ٹھیک ہے لیکن بلا وجہ اضافی پیسے کاٹنا اور حقدار خواتین کے پیسے رکھنا ظلم ہے۔

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ