سوال

آب شفاء یا بئر شفاء جو مدینہ اور بدر کے درمیان ہے، اس کنوے کے پانی کے متعلق مشہور ہے کے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنا لعاب ڈالا تھا، اس وجہ سے اس پانی میں ہر مرض کی شفاء ہے۔ برائے مہربانی اس کی حقیقت اور افادیت کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

مدینہ اور بدر کے درمیان جو کنواں مشہور ہے، اس کا نام ’بئر روحاء’ ہے، غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر پڑاؤ کیا تھا اور نماز ادا کی تھی، اتنی بات صحیح احادیث و آثار سے ثابت ہے۔ یہ مدینہ سے بدر کے راستے پر تقریبا 75_80 کلومیٹر کے فاصلے پر  ہے۔ [صحيح الأخبار عما في بلاد العرب من الآثار 5/ 179، المعالم الأثيرة لشراب ص 131، معجم المعالم الجغرافية لعاتق البلادي ص 143، معجم الأمكنة الوارد ذكرها في صحيح البخاري ص 260]

بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس مقام کا نام “الروحاء” ہے، جبکہ کنویں کا نام “سجسج” ہے۔ چنانچہ ابن حزم لکھتے ہیں:

«ونزل عليه السلام سجسج، وهو ‌بئر بالروحاء». [جوامع السيرة له ط المعارف ص108]

ابو عبید البکری نے بھی یہی لکھا ہے:

«ونزل سجسج، وهى ‌بئر ‌الرّوحاء». [معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع 3/ 958]

امام سہیلی نے اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

«وَذَكَرَ سَجْسَجًا، وَهِيَ بِ ‌الرّوْحَاءِ، وَسُمّيَتْ سَجْسَجًا، لِأَنّهَا بَيْنَ جَبَلَيْنِ وَكُلّ شَيْءٍ بَيْنَ شَيْئَيْنِ فَهُوَ سَجْسَجٌ». [الروض الأنف ت تدمري 5/ 69]

یعنی اس کنویں کو دو پہاڑوں کے درمیان وادی میں ہونے کے سبب ’سجسج’ کہا جاتا ہے۔

علامہ سمہودی نے اس مقام کو قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے، جس سے درج ذیل فوائد سمجھ آتے ہیں کہ اس مقام کو روحاء اس وجہ سے کہا جاتا ہے، کیونکہ لوگ سفر کے دوران یہاں سکون و راحت حاصل کرنے کے لیے ٹھہرا کرتے تھے۔ یہ قدیم رستہ ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی قافلے گزرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی حجاج مکہ و مدینہ کے مابین سفر کے لیے یہی راستہ اختیار کرتے تھے، یہ مقام ایک مکمل بستی کی شکل اختیار کر گیا تھا، جہاں حاجیوں اور مسافروں کی سہولت کے لیے مختلف خلفاء و سلاطین نے کنویں اور حوض وغیرہ بنوائے تھے۔ یہاں ایک سے زائد مساجد بھی تھیں۔ مدینہ سے اس بستی کا کتنا فاصلہ ہے؟ اس میں مؤرخین میں قدرے اختلاف ہے، جس کی وجہ یہی ہے کہ کچھ نے اس بستی کی ابتداء سے شمار کیا، کسی نے آخر سے اور کسی نے درمیان سے۔ [وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى 4/ 83]

مقامِ روحاء کو جدید جغرافیائی کتب میں مستقل بستی اور گاؤں قرار دیا گیا ہے، جو بدر اور مدینہ منورہ کے تحت آتی ہیں۔ (المعجم الجغرافي للبلاد العربية السعودية: 1/ 516، روح)

ان سب باتوں کو قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں لعاب ڈالا ہو یا اسے آبِ شفاء قرار دیا ہو، حدیث، سیرت، تاریخ، جغرافیہ وغیرہ کی کتابوں میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں ہے۔

کسی پانی کو بابرکت اور شفاء قرار دینے کے لیے دلیل کا ہونا ضروری ہے، جیسا کہ آب زمزم کے بارے میں احادیث موجود ہیں۔

ہاں البتہ مختلف علاقوں کے پانیوں کی مختلف تاثیر ہوتی ہے، اگر تجربہ سے کسی کنویں یا چشمے یا پانی میں کوئی تاثیر یا فائدہ ثابت ہو جائے تو اسے اس مقصد کے لیے استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم بعض چیزوں کو مختلف بیماریوں کے لیے بطور دواء استعمال کرتے ہیں، تو یہ سب تجرباتی چیزیں ہیں، اس بنا پر انہیں استعمال کرنا جائز ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اس کنویں کے پانی کے استعمال کے متعلق پوچھا تو آپ نے یہی جواب دیا کہ اگر کسی کو کسی خاص مرض کے لیے اس پانی سے فائدہ ہوتا ہے، تو اسے استعمال کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ ( نور على الدرب من موقع الشيخ ابن باز)

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ بطور دوا اگر اس میں کسی بیماری کی تاثیر ہو تو اسے استعمال کرنے میں حرج نہیں تاہم نبی ﷺ کے اس میں لعاب ڈالنے والی بات، یا اسے آبِ شفاء قرار دینا کسی صحیح حدیث سے ہرگز ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ