سوال

ایک خاتون  نے اپنی بیٹی کو 9لاکھ کا جہیز دیا اور اسکا کہنا ہے کہ جب وراثت تقسیم ہوگی تو میں نو لاکھ کاٹ کر باقی حصہ بیٹی کو دے دوں گی کیا وارثت کی تقسیم اس طرح ہو سکتی ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

شرعی طور پر شادی کے بعد بیوی کے نان نفقہ، رہائش اور ضروریات کی ذمہ داری شوہر پر ہوتی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:

“اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ”. [الطلاق: 07]

’’انہیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو‘‘۔

لہٰذا بیٹی کو شادی کے وقت گھر کا سامان دینا، جسے عرف میں “جہیز” کہا جاتا ہے، نہ تو شرعی فریضہ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے۔ یہ ایک معاشرتی رسم ہے، جس کا مقصد عام طور پر نمود و نمائش اور دکھاوا ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں یہ کہنا کہ “میں نے بیٹی کو نو لاکھ کا جہیز دیا تھا، اب وراثت کی تقسیم میں یہ رقم کاٹ کر باقی حصہ دوں گی”  یہ طرزِ عمل شرعاً درست نہیں۔ کیونکہ بیٹی کو جہیز قرض کے طور پر نہیں دیا جاتا بلکہ بطور تحفہ دیا جاتا ہےاور تحفہ دے کر کسی بھی طریقے سے واپس لینا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح وراثت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقرر کردہ حصص کے مطابق ہوتی ہے، اس میں کسی کو کمی بیشی کا حق حاصل نہیں ہے۔ وراثت کی تقسیم کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ…”. [النساء: 11]

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے..‘‘۔

اس لیے ہر وارث کو اس کا پورا شرعی حصہ دینا ضروری ہے، خواہ اس کو زندگی میں کچھ دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو، الا یہ کہ وہ چیز قرض کی نیت سے دی گئی ہو، اور فریقین کے درمیان یہ بات طے شدہ ہو۔

لہٰذا بیٹی کو جہیز دینا اگرچہ شرعاً ضروری نہیں تھا، لیکن چونکہ دیا گیا تو وہ اب اس کی ملکیت بن چکا ہے، اور اب وراثت سے اس کی رقم کاٹنا شرعاً درست نہیں۔ وراثت صرف اسی طریقے کے مطابق تقسیم ہو گی، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر فرمایا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ