بے وفائی کے گھاؤ

انسان ٹوٹ سا جاتا ہے، کسی کی بے وفائی پر اس کے دل میں ہوک سی اٹھنے لگتی ہے۔حسّاس دلوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ جب بھی خلوت نشیں ہو کر کسی کی کج ادائی پر غور کرتے ہیں تو آنکھیں بھیگتی چلی جاتی ہیں۔جوں جوں یہ لوگ سوچ کی بنجر راہوں اور خیالات کے صحراؤں میں آبلہ پائی کرتے جاتے ہیں، آنسو ٹپ ٹپ گرتے چلے جاتے ہیں، اشکوں کی ایک جھڑی سی لگ جاتی ہے۔ وہ اپنے کسی دوست، کسی رشتے دار اور کسی لاڈلے پر اپنے احسانات کو یاد کرتا چلا جاتا ہے اور بدلے میں ملنے والے احسان فراموشی کے گھاؤ اور بے وفائی کے زخم آنسوؤں میں ڈھل کر آنکھوں سے بہتے چلے جاتے ہیں۔کوئی ایک موڑ، کوئی ایک شخص زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔عباس تابش نے کیا خوب کہا ہے ؎
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی میری
اس ماحول اور معاشرے پر غور کر لیجیے! کتنے ہی لوگ اپنوں کی بے وفائی پر شکوہ سنج دکھائی دیتے ہیں۔لاریب ہمارے رویّوں کے تمام اجزائے ترکیبی خود غرضی کے بدنما اور سیاہ کمبل میں ملفوف ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں وفائیں مٹتی جا رہی ہیں، خلوص معدوم ہونے لگا ہے؛ شفق رنگ اور اجلے تعلقات مدھم اور پھیکے پڑتے جا رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ہم کسی پر جتنے زیادہ احسانات کرتے ہیں، اس کی بے وفائی پر اتنے ہی رنجور اور ملول ہوتے ہیں۔حالت یہ ہے کہ اب لوگ کسی پر احسان کرتے ہوئے بھی سوچنے لگے ہیں کہ کہیں بدلے میں فتنوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جائے۔ کچھ لوگ سرِ عام اپنوں کی احسان فراموشی کو یاد کرتے ہیں تو کچھ اندر ہی اند گُھٹ کر جلتے اورسلگتے ہیں۔لوگوں کی اکثریت آج مطلب اور ضرورت کے سانچوں میں ڈھلی ہے۔دوستوں کی کج ادائیوں، رشتے داروں کی بے پروائیوں اور ہم رکابوں کی احسان فراموشیوں کو زندگی کا روگ بنا لینے والے لوگوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہ کی کہ ہم نے بھی تو بے وفائیوں اور کج ادائیوں کے انبار لگا رکھے ہیں، ہم نے بھی تو نافرمانیوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، ہم نے بھی تو اپنے محسن کے احسانوں کو فراموش کر دیا ہے۔ہمارے محسن نے ہم پر احسانات کی بارش کر رکھی ہے مگر ہم نے بے رغبتی اور بدذوقی کی انتہا کر دی ہے وہ اللّہ ربّ العزت جو ہم پر ہماری ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے، دنیا مانتی ہے کہ سب سے زیادہ مقدّس اورپاکیزہ محبت ماں کی ہوتی ہے، اس دنیا میں سب سے زیادہ احسان ماں اپنی اولاد پر کرتی ہے، مگر وہ اللّہ ہم پر ماؤں سے بھی زیادہ شفیق اور مہربان ہے۔آپ اپنے وجود پر سر سے لے کر پاؤں تک غور کر لیجیے! آپ شرق و غرب کی فراخیوں میں پھیلی اَن گنت نعمتوں کو دیکھ لیجیے! اور آپ تا بہ فلک بکھری ہر چیز کا مشاہدہ کر لیجیے آپ کسی ایک چیز پر بھی انگلی رکھ کر یہ نہیں کہ سکتے کہ یہ اللّہ کے علاوہ کسی اور نے تخلیق کی ہے۔اس کائنات میں کوئی ایک شے بھی ایسی نہیں جو اللہ کے علاوہ کسی اور کی کاریگری ہو، ہمارے جسم کا کوئی ایک حصّہ اور کوئی ایک جذبہ بھی ایسا نہیں جو کسی اور نے ہمیں عطا کیا ہو۔آپ اللّہ رب العزت کی محبتوں اور رحمتوں کا عالم دیکھیے کہ ہماری ہر طرح کی نافرمانی کے باوجود وہ اللّہ اپنی رحمتوں میں کمی نہیں کرتا۔ اللّہ ربّ العزت تو مشرکین اور کفار کو بھی مسلسل نعمتوں سے نواز رہا ہے، اگرچہ قیامت کے دن یہ لوگ کبھی جنت میں نہیں جا پائیں گے مگر وہ اللّہ اس دنیا میں سب پر احسانات کر رہا ہے۔ہم اپنے محبوب کی کی بے اعتنائیوں پر اپنے سینوں میں غم واندوہ کی انگیٹھی سلگائے بیٹھے ہیں۔ صبح شام ان لوگوں کی غیبتیں کر کر کے اور جا بہ جا ان کی احسان فراموشی کے تذکرے کر کے بھی ہمارے تپتے اوردہکتے سینوں میں ٹھنڈ نہیں پڑتی، لیکن ہم نے اس رب کے ساتھ اپنی بے وفائی پر کبھی غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی، جو ہمیں مستقل بنیادوں پر نعمتوں سے نواز رہا ہے، ہم نے کبھی تخلیے میں یہ نہیں سوچا کہ اس پروردگار کے ساتھ ہم نے کتنی بے اعتنائی برتی ہے۔ہم کسی بھی شخص کے ساتھ جو بھی احسان کرتے ہیں اس میں ہمیشگی اور دوام تو نہیں پایا جاتا مگر اللّہ اپنے بندوں پر جو احسانات کرتا ہے وہ تو پوری زندگیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ہم جب تک زندہ رہتے ہیں اس کی نعمتوں اور رحمتوں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ ہم اس معاملے میں کبھی اتنے حسّاس ثابت نہیں ہوئے کہ تنہائی میں بیٹھ کر یا کسی خلوت کدے میں اپنے گھٹنوں میں سردے کر اس رب رحمان کے احسانوں اور اپنی نا فرمانیوں کو یاد کر کے رو دیے ہوں۔اس معاملے میں ہماری تمام تر حسّاسیت کیوں مردہ ہو جاتی ہے؟ اس رب کی تمام تر نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باجود کیا ہم اتنی سی فہم بھی نہیں رکھتے کہ ہم اپنے چاہنے والوں پر محدود احسان ہی کر سکتے ہیں؟ ہم کسی بھی شخص کو اَن گنت نعمتیں نہیں دے سکتے، جب کہ اللّہ نے ہمیں جو نعمتیں دی ہیں وہ لامحدود ہیں۔ سورۃ النحل آیت نمبر اٹھارہ میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ” اور اگر تم اللّہ کی نعمتوں کو گننا چاہو توا ن کو گن نہیں سکتے” ہم کسی بھی شخص کے ساتھ محدود پیمانے پر شفقت اور مہربانی کر سکتے ہیں جب کہ اللہ ربّ العزت کی محبتیں اتنی بے پاپاں ہیں کہ ان کا تصوّر ہی محال ہے۔ اللہ اپنی اسی محبت کا اقرار خود قرآن مجید کی سورہ النحل آیت نمبر سات میں کرتے ہیں۔” تمھارا رب لوگوں پر بڑا ہی رؤف اور رحیم ہے ” اسی طرح سورہ النحل آیت نمبر سنتالیس میں اللّہ فرماتے ہیں کہ ” لوگو! تمھارا رب بہت زیادہ رؤف اور رحیم ہے ” اہلِ علم اور عربی دان اچھی طرح جانتے ہیں کہ رؤف مبالغے کا صیغہ ہے اور اس کا معنی ہے ” بہت زیادہ محبت کرنے والا ” اللّہ کی اپنے بندوں سے بے کراں محبتوں کا اندازہ اس حدیث سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ ”حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے، ان قیدیوں میں ایک عورت تھی جو دوڑ رہی تھی، جب اس نے قیدیوں میں ایک بچے کو پایا تو اسے پکڑا اور اپنی چھاتی سے چمٹا لیا، پھر اسے دودھ پلایا، تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمھارا کیا خیال ہے کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم نے کہا، اللّہ کی قسم نہیں، اگر یہ نہ پھینکنے کا اختیار رکھتی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللّہ کی قسم جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے، اللّہ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے” اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم عزت اور محبت سے لے کر عشق تک کے تمام جذبے جس کے قدموں میں بھی ڈال دیں وہی زندگی کو اجیرن بنا ڈالتا ہے۔محبتوں کی دنیا میں جو بھی ہمارا انتخاب ہوتا ہے وہی سانسوں میں تلخیاں گھول دیتا ہے۔ہم کسی ایک بے وفا شخص ہی کے ساتھ محبت نبھاتے نبھاتے بالآخر مر ہی جاتے ہیں۔عباس تابش نے ہی کہا ہے ؎
ہم ہیں سُوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اگرآپ واقعی حساس دل واقع ہوئے ہیں تو یقیناً آپ کو اس لطف اور سرور کا ادراک اور شعور ضرور ہو گا جب کوئی آپ کا چہیتا اور پیارا شخص اپنی بے وفائیوں اور احسان فراموشیوں کا احساس کر کے معافی طلب کرنے آپ کے پاس لوٹ آیا ہو، اس وقت آپ کو کتنی ہی خوشیاں ملی ہوں گی، کتنی ہی مسرّتوں نے آپ کو اپنے حصار میں لے لیا ہو گا، اگر آپ کو ربّ العزت کے ساتھ اپنی احسان فراموشیوں کا احساس ہو گیا ہے، اگر واقعی اس خالق اور مالک کے ساتھ اپنی بے رخی آپ کو بے کل کرنے لگی ہے تو پلٹ آئیے اس رب کی طرف، یقیناً اس پروردگار کی محبتوں اور رحمتوں کو بھی آپ کی اس تبدیلی پر جوش آئے گا، لوٹ آئیے نا! اپنے رب کے سامنے، اللّہ کی قسم رب کی رحمتیں اور محبتیں آپ کو اپنے دامن میں لینے کی کب سے منتظر ہیں۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: کیا تدبرِ قرآن بلا حدود و قیود کھلا میدان ہے؟