سوال (5727)
ہم لوگ حج پر جانا چاہ رہے ہیں میں، میرے بیوی بچے، ساس، سالی اور سالے کی بیوی۔
اصل میں جب ہم نے خاندان والوں میں بات کی تو میرے سالے نے کہا کہ میں میری بیوی اور میری والدہ بھی آپ کے ساتھ جائیں گے، یہ بات طے ہوگئی تھی کہ سب جا رہے ہیں اب میرا سالا عین ٹائم پہ آکر کہہ رہا ہے کہ میں نہیں جا سکتا، آپ میری بیوی اور والدہ کو لے جائیں۔
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اس کی والدہ یعنی میری ساس اس کا تو میں محرم بنتا ہوں اور میری سالی کے لیے میرا بیٹا محرم بن جائے گا، لیکن میرے سالے کی بیوی کے ساتھ کوئی محرم نہیں ہے۔
کیا ہم اس کو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں؟ کیونکہ بعض علماء کہتے ہیں کہ جب گروپ جا رہا ہو تو اس میں اجازت ہے، کیا میرے سالے کی بیوی ہمارے ساتھ جاسکتی ہے؟
جواب
واجب حج اور عمرے کے لیے بغیر محرم سفر کرنے کا جواز ہے، اس میں اگر محرم ہے تو یہ بہت افضل اور بہتر ہے، اسکی کوشش بھی کرنی چاہیے، لیکن اگر صورتحال ایسی ہو کہ ساتھ مأمون جماعت اور قابل اعتماد لوگ جارہے ہوں، جیسے یہاں اس عورت کی ساس ہے، اسی طرح اس عورت کی نند بھی جا رہی ہے تو یہ قابل اعتماد لوگ ہی ہیں، انکے علاوہ باقی لوگ بھی ان کے رشتہ دار ہیں اور قابل اعتماد ہی ہوں گے۔ بہر صورت اس عورت کا اس سفرِ حج کے لیے جانا جب یہ پہلی دفعہ جا رہی ہو تو یہ بالکل جائز ہے اور اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ، امام شافعی اور اسی طرح امام مالک یہ تو واضح طور پر اسکی اجازت دیتے ہیں۔ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو جماعت کی قید بھی نہیں لگاتے وہ کہتے ہیں کہ بس امن ہو تو پھر عورت بغیر محرم بھی سفر حج پر جا سکتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ