سوال (5943)

میں نے قرض دینا ہے اور ایک طرف میرے بھائی کی ضرورت آگئی ہے تو کیا میں پہلے بھائی کی ضرورت پوری کردوں اس امید پر کہ اللہ مجھے اور دے دیں گے اور میں قرض اتار دوں گا، یہ توکل کے منافی تو نہیں ہوگا؟

جواب

پیارے بھائی سوال کا پس منظر واضح نہیں! اگر تو قرض کی واپسی کا وقت آ چکا ہے تو پھر تو آپ کے جو رقم ہے وہ اس قرض دینے والے کی ہے اور آپ کے پاس اپنی رقم ہی نہیں پس آپ اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے مکلف ہی نہیں ہیں بہت معذرت مگر اس مکلف نہ ہونے کو صرف سمجھانے کے لئے مجبورا ایک غیر مناسب مثال دینا چاہوں گا کہ سلطانہ ڈاکو کے پاس رقم نہیں تھی تو وہ غریبوں کی مدد کرنے کا مکلف نہیں تھا مگر ڈاکا نہ ڈالنے کا مکلف تھا لیکن وہ ڈاکا ڈالنے کے حکم کو نذر انداز کر کے ایک غیر مکلف عمل (یعنی غریبوں کی مدد) کرنا چاہتا تھا جو درست نہیں تھا پس اگر آپ کسی بھائی کی مدد کرنا ہی اہتے ہیں تو اس کے لئے اس بندے سے اجازت لے کر مہلت مانگ لیں کہ فلاں ضرورت آ گئی ہے مجھے تھوڑی اور مہلت دے دی جائے تاکہ میں کسی کی مدد کر سکوں۔
ہاں اگر ابھی واپسی کا وقت کافی دور ہے اور آپ کو مکمل امید ہے کہ اس وقت تک آپ کے پاس وہ رقم آ جائے گی تو پھر آپ توکل کر کے ابھی وقتی طور پہ کسی بھائی کی مدد کر سکتے ہیں واللہ اعلم.

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

جس کو آپ نے لوٹانے ہے، اگر وہ تاخیر پر راضی ہوتا ہے، تو ٹھیک ہے، اس سے پہلے پوچھ کر اجازت لے لیں، اگر تاریخ پوری ہو چکی ہے، تو پوچھنا ضروری ہے، اگر ٹائیم باقی ہے تو ٹھیک ہے، توکل کے منافی کوئی چیز نہیں ہے، ضروریات انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، انسان اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے قدم اٹھاتا ہے، پھر بھائی کی مدد کریں، اگر وقت باقی ہے، اگر وقت ہوگیا ہے تو اس سے پوچھ لیں، اگر وہ اجازت دیتا ہے تو بھائی کو دے دینا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ